خزائن القرآن |
|
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چوں کہ توریت، زبور و انجیل کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری نہیں لی اس لیے سب میں تحریف ہو گئی۔ ان کتابوں کی حفاظت اس وقت کے علماء کے حوالے تھی۔ علماء کے بعد والی نسلوں نے ان کو بیچنا شروع کر دیا لہٰذا آج توریت، زبور و انجیل محفوظ نہیں ہیں، جو موجود ہے تحریف شدہ ہیں لیکن قرآنِ پاک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری قبول فرمائی ہے۔ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ جملہ اسمیہ سے دواماً اور ثبوتاً نازل ہوا ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہ قرآنِ پاک محفوظ رہے گا۔ چناں چہ بالفرض اگر امریکا، روس، برطانیہ اور سارے عالم کی طاغوتی طاقتیں مل کر دنیا بھر کے قرآنِ پاک کے نسخے جمع کر کے جلا دیں تو ہمارے لاکھوں حفاظ اس کو پھر لکھوا دیں گے۔ قرآنِ پاک سینوں میں محفوظ ہے اور ہر زمانہ میں رہا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ یہ حفاظِ کرام اللہ تعالیٰ کی سرکاری ذمہ داری کے منتخب افراد ہیں۔حفاظتِ قرآن پاک کی خدائی ذمہ داری کےمنتخب افراد اور جہاں جہاں حفظِ قرآن کے مدارس کھولے جاتے ہیں وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی اس سرکاری ذمہ داری کے منتخب افراد ہیں وہ مسلمان منتخب مسلمان ہیں، قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا جو سرکاری اعلان قرآنِ پاک کی حفاظت کا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرشتوں سے نہیں کرائیں گے، جنوں سے نہیں کرائیں گے بلکہ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ کا تفسیری جملہ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایااَیْ فِیْ قُلُوْبِ اَوْلِیَآئِنَا؎ ہم اپنے دوستوں کے قلوب میں اس کو محفوظ کریں گے۔قرآنِ پاک کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ ہے تو جہاں جہاں حفظِ قرآن کے مدارس ہیں یہ سب بارگاہِ حق کے سرکاری لوگ ہیں کیوں کہ حفاظت قرآنِ پاک کی سرکاری ذمہ داری کے منتخب افراد اور کارکن ہیں اور وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ میں قرآنِ پاک کے الفاظ کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے اور ان الفاظ کے معانی و مفاہیم کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے کیوں کہ اگر کسی مکان کے باہر تالا لگا ہو لیکن مکان کے اندر کا سونا چاندی اور جواہرات سب چوری ہوجائیں تو کیا حفاظتی حق ادا ہوا۔ لہٰذا قرآنِ پاک کے الفاظ میں بھی قیامت تک کوئی تحریف و تبدل و تغیر نہیں ہوسکتا اور قرآنِ پاک کے معانی ------------------------------