خزائن القرآن |
|
تحقیر بھی نہ ہو کیوں کہ کافر کے کفر سے تو بغض واجب ہے لیکن کافر کی تحقیر حرام ہے کیوں کہ معلوم نہیں کہ کس کا خاتمہ کیسا ہونے والا ہے لہٰذا جس کافر کو دیکھو تو یہ پڑھ لیا کرو اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَا کَ بِہٖ وَ فَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا؎ اس میں آپ تحقیر سے بچ جائیں گے کیوں کہ زبان و دل سے شکر نکل گیا اور شکر اور کبر جمع نہیں ہو سکتے۔آیت نمبر۲۷ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ؎ ترجمہ: سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول لَاۤ اُحِبُّ الْاٰ فِلِیْنَ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نازل فرمایا کہ ہم فنا ہونے والوں سے محبت نہیں کرتے۔ آپ جنگل میں دیکھیں گے کہ جہاں کہیں مردہ بھینس یا گائے پڑی ہو گی وہاں گدھ ہی گدھ نظر آئیں گے اور بازِ شاہی صرف زندہ شیر کا شکار کرتا ہے۔ احقر کا شعر ہے ؎ می نگیرد بازِ شہ جُز شیرِ نر کر گساں بر مُردگاں بکشادہ پر بازِ شاہی سوائے شیرِ نر کے کسی جانور کا شکار نہیں کرتا اور گدھ پر پھیلائے ہوئے مردہ لاشوں سے چپٹے ہوئے ہیں۔ مردہ سڑی ہوئی لاش ان کو پلاؤ قورمہ معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح جو دنیائے فانی کے عاشق ہیں ان کا حوصلہ اتنا پست اور ذلیل ہو جاتا ہے کہ دنیائے مردار اور فنا ہونے والی صورتیں ان کو نہایت مہتم بالشان نظر آتی ہیں اور کرگسوں کی طرح مردہ لاشوں سے لذّت کشی ان کا شعار اور مقصدِ حیات بن جاتا ہے۔ جو بندہ مقرب باللہ ہو جاتا ہے اس کی روح جو شہبازِ معنوی ہے دین کی شکار گاہ میں مثل حضرت ابراہیم علیہ السلام لَاۤ اُحِبُّ الْاٰ فِلِیْنَ کا نعرہ بلند کرتی ہے اور بجز اللہ کے کسی ------------------------------