خزائن القرآن |
|
بیعت کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ کے قید و بند سے آزاد ہوتا ہے اس کی زندگی لعنتی اور بے کسی کی ہوتی ہے اور جو اللہ والا ہوتا ہے، اللہ والوں کے ہاتھ بکتا ہے وہ دراصل اللہ والوں کے ہاتھ نہیں بکتا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنے نمایندے رکھے ہوئے ہیں جو بندوں کو اپنے ہاتھوں پر خرید کر اللہ تک پہنچا دیتے ہیں۔بیعت کی ایک حسی مثال جیسے وزیر اعظم کو گندم بھیجنا ہے تو کسانوں سے گندم خریدنے کے لیے وزیر اعظم خود نہیں آتا بلکہ ہر علاقہ کے ڈپٹی کمشنر کو اپنا نمایندہ بناتا ہے کہ کسانوں سے رابطہ قائم کر کے سرکاری پیسے سے ان کو ادائیگی کرو اور ان سے گندم خرید لو اور اسلام آباد بھیج دو۔ اسی طرح اللہ والے اللہ تعالیٰ کے نمایندے ہیں۔ بندوں کو خرید کروہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ یعنی ولی اللہ بننے کا راستہ بتا دیتے ہیں جس پر چل کر وہ اللہ والا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں خریدتے، اللہ تعالیٰ کی بندگی سکھانے کے لیے بیعت کرتے ہیں۔ بیعت کے معنیٰ ہیں بکنا۔ دراصل وہ بکتا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ، اللہ والوں کا ہاتھ نمایندہ ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں وہ اصل میں میرے نبی کا ہاتھ نہیں ہے، میرا ہاتھ ہےیَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ اللہ کا ہاتھ ہے وہ ۔ اے صحابہ! سمجھ لو کہ تم میرے پیغمبر )صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم( کے ہاتھ پر جو بیعت کر رہے ہو وہ میرے نبی )صلی اﷲ علیہوسلم( کا ہاتھ نہیں یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ اے صحابہ! تمہارے ہاتھوں پر بظاہر نبی کا ہاتھ ہے مگر اس ہاتھ میں دراصل میرا ہاتھ ہے۔ نبی )صلی اﷲ علیہ وسلم( کا ہاتھ میرا خلیفہ اور نمایندہ ہے۔ تو اسی طرح جو نائبِ رسول ہیں جب وہ بیعت کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔شرح آیتِ بالا بعنوانِ دِگر بیعت کے متعلق ایک عجیب عاشقانہ مضمون اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کر لو تو کسی سچے اللہ والے سے بیعت ہو جاؤ کیوں کہ دنیا میں اللہ سے مصافحہ کا کوئی راستہ نہیں لیکن جو بیعت ہوتا ہے وہ اپنے شیخ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے اور شیخ کا ہاتھ