خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۴۲ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ؎ ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور( عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔تصوّف کی حقیقت آج کل لوگوں نے چند وظیفوں پر، چند تسبیحات پر اور چند خوابوں اور مراقبات پر اور نفلی عبادات پر تصوف کی بنیاد رکھی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ قرآنِ پاک کا اعلان سن لیجیے: اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ؎ ہمارے ولی صرف متقی بندے ہیں۔ تصوف کی حقیقت صرف تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔ اگر اللہ والوں کے پاس رہنا ہے تو تقویٰ سیکھیے اور اگر یہ ارادہ نہیں ہے تو بلاوجہ وقت ضایع نہ کیجیے۔ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ یعنی معیتِ اہل اللہ سے مقصد کیا ہے؟ تقویٰ ہے۔ کیوں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ میں تقویٰ کا حکم ہے اور وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ حصولِ تقویٰ کا طریقہ ہے۔معیّتِ صادقین کے دوام واستمرار پر استدلال اللہ تعالیٰ نے وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ فرمایا ہے اور کُوْنُوْاامر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے اور مضارع میں تجددِ استمراری کی صفت ہوتی ہے جس کا مطلب ہوا کہ استمراراً اور دواماً اہل اللہ کے ساتھ رہو، کوئی زمانہ اہل اللہ سے مستغنی نہ رہو۔ لہٰذا اگر کسی کے شیخ کا انتقال ہو جائے تو اس کو فوراً دوسرے شیخ سے تعلق قائم کرنا چاہیے جیسے ڈاکٹر کا انتقال ہو جائے تو طبعی غم ہونا ہی چاہیے لیکن اب اس کی قبر پر جا کر کوئی انجکشن لگوا سکتا ہے؟ فوراً دوسرا ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب شیخ کا انتقال ہو جائے تو اپنی اصلاح کے لیے دوسرا شیخ تلاش کیجیے۔ جس طرح جسمانی علاج زندہ ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے، روحانی اصلاح زندہ شیخ ہی سے ہوتی ہے۔ ------------------------------