خزائن القرآن |
|
تفسیر منقول ہے تَجْوِیْدُ الْحُرُوْفِ وَمَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ کہ حروف بھی صحیح ہوں یعنی مخارج سے ادا ہوں اور کہاں سانس توڑیں اس کی معرفت ہو۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامِ لیل اور تلاوتِ قرآن یہ دونوں کام منتہی کے اسباق ہیں۔ جتنے اولیاء اللہ ہیں آخر میں ان کو یہی دو شغف رہ جاتے ہیں، رات کو تہجد پڑھنا اور قرآن کی تلاوت کرنا ۔ یہ دو اعمال منتہی کے سبق ہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی سوال قائم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے منتہی کا سبق پہلے کیوں نازل فرمایا۔ دیکھیے پہلے موقوف علیہ پڑھاتے ہیں پھر بخاری شریف ملتی ہے لیکن یہاں معاملہ کیوں برعکس ہوا؟ قیامِ لیل اور تلاوتِ قرآن تو آخری سبق ہے اور ذکرِ اسمِ ذات اور نفی و اثبات مبتدی و متوسط کے اسباق ہیں۔ تو اعلیٰ مقام اور آخری درجہ کا سبق پہلے کیوں نازل فرمایا؟ اس میں کیا راز ہے؟ اس اِشکال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جن پر قرآن پاک نازل ہو رہا تھا چوں کہ وہ سید المنتہین تھے، سید الانبیاءتھے ان کے مقامِ نبوت کے علو و رفعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے منتہی کا سبق نازل فرمایا اس کے بعد پھر عام اُمت کے لیے سبق نازل کیا۔ یہ ترتیب کا راز منکشف کیا علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے۔آیت نمبر ۱۰۲ وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی﴿ؕ۴۱﴾ ؎ ترجمہ: اور جو شخص (دنیا میں) اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کو حرام خواہشات سے روکا ہوگا سو جنّت اس کا ٹھکانہ ہو گا۔ آج ایک بہت اہم مضمون بیان کرنا ہے جو ابھی دل میں آیا ہے اور وہ یہ کہ جنّت میں جانے کا راستہ کیا ہے؟ جنّت کس کا ٹھکانہ ہے؟ منزلِ جنّت کے باشندے، جنّت میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟ یعنی جنّت جن کے لیے مقدر ہے وہ کون لوگ ہیں؟ قافلۂ جنّت کی علامت کیا ہے؟ کیسے معلوم ہو کہ یہ آدمی جنّتی ہے اور ------------------------------