خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۶۸ وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ ؕ ؎ ترجمہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہارے لب ولہجہ اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے۔اللہ تعالیٰ کی دو عظیم الشّا ن نشانیاں اللہ تعالیٰ نے آ ج ایک علمِ عظیم عطا فرمایا کہ کسی زبان کو دل سے حقیر سمجھنا یا زبان سے ظاہر کرنا اس میں خوفِ کفر ہے۔ چناں چہ تھانہ بھون میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہنے ایک شخص کا خط پڑھا جو بنگال سے آیا تھاجس میں لکھا تھا کہ’’ ہم بہت ہانستا ہے اس کا علاج بتائیے‘‘۔ حضرت کی مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ بنگالی معلوم ہوتاہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہارے اس جملے سے حقارت کی بو آرہی ہے کہ تم نے اہلِ بنگال اور ان کی زبان کو حقیر سمجھا لہٰذا تم جا کر دوبارہ کلمہ پڑھو اور دو رکعات نمازِ توبہ پڑھو۔ لہٰذا زبان کو حقیر سمجھنا اس لیے حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَّتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ اے دنیا والو! تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف میری نشانی ہے اور نشانی سے جان پہچان ہوتی ہے یعنی تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف میری معرفت کا ذریعہ ہے۔ میں افریقہ کے ملک ملاوی میں تھا۔ ایک صبح کتے بھونک رہے تھے۔ میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ جانوروں کی زبان کو چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا ذریعہ نہیں بنایا اس لیے دنیا بھر کے جانوروں کی ایک ہی بولی ہے۔ کتا چاہے پاکستان کا ہو یا افریقہ کا ہو یا امریکا اور برطانیہ کا ہو بھوں بھوں ہی کرے گااور بلی چاہے کسی ملک کی ہو میاؤں ہی کہے گی لیکن انسانوں کی زبانیں مختلف ہیں کیوں کہ ان کو اپنی نشانی اور معرفت کا ذریعہ بناناتھا تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں کہ واہ! کیا شان ہے آپ کی کہ کتنی زبانیں آپ نے پیدا فرمادیں۔ لہٰذا کسی زبان کو یا کسی رنگ کو مثلاً کالوں کو حقیر سمجھنا اس میں اندیشۂ کفر ہے۔ایک شخص کسی بونے کو دیکھ کر ہنسنے لگاتو اس نے کہا ------------------------------