خزائن القرآن |
|
کو جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اس کو حضرت خواجہ صاحب نے یوں فرمایا ہے ؎ تم سا کوئی ہمدم کوئی دمساز نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے اور یہ قرب گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھانے سے، اپنی حرام آرزوؤں کا خون کرنے سے نصیب ہوتا ہے اور اتنا عظیم قرب نصیب ہوتا ہے کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل اللہ کی ارواح کو اللہ تعالیٰ سے جو قرب حاصل ہے اس کو وہم و قیاس میں نہیں لایا جا سکتا ؎ خاصانِ خدا، خدا نباشند لیکن ز خدا جدا نباشند اللہ کے خاص بندے خدا نہیں ہیں لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں۔ اللہ والوں کو خدا سمجھنا کفر ہے لیکن ان کو خدا سے دور سمجھنا بھی غلو اور بے عقلی ہے۔ اہل اللہ کو ہر گز خدا نہ سمجھو ورنہ کافر ہو جاؤ گے لیکن ان کو خدا سے دور بھی نہ سمجھو۔ مولانا رومی نے اس کو عجیب مثال سے سمجھایا ہے کہ دیکھو آفتاب آسمان پر ہے اور اس کی شعاع اور دھوپ زمین پر ہے۔ دھوپ سورج نہیں ہے لیکن سورج سے الگ بھی نہیں ہے۔شرح آیتِ بالا بعنوانِ دِگر جب اﷲ اپنے اولیاء کا پیار لیتے ہیں تو اپنا پیار ان کے دلوں کو بہت چھپا کر دیتے ہیں کہ کسی نفس کو پتا نہیں چلتا جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کو عطا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ولی کے پیار کی لذت کو دوسرا ولی بھی نہیں جانتا۔ اپنے پیاروں کو اپنے پیاروں کی نظر سے بھی چھپا کر وہ دل میں پیار لیتا ہے جس کو ہر ولی سمجھتا ہے، ہر مستغفر سمجھتا ہے اور ہر تائب سمجھتا ہے۔ اس آیت کے لطیفہ خاص کے مفہوم کی مثال میرے رب نے مجھے عجیب و غریب عطا فرمائی اور یہ تفسیر نہیں ہے لطائفِ قرآن سے ہے کہ جب ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو دودھ کی شیشی میں کپڑا لپیٹ دیتی ہے اور اگر کئی بچے ہیں تو ہر ایک کی شیشی پر الگ الگ کپڑا لپیٹ دیتی ہے تاکہ کہیں میرے ہی بچوں کی نظر میرے بچوں کو نہ لگ جائے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیار اور قرب کی لذت اپنے اولیاء کو اپنے اولیاء سے چھپا کر دیتا ہے اور ماں اپنے بچوں کو جو دودھ دیتی ہے اس کی تو ایک ہی لذت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو الگ الگ لذتِ قرب دیتے ہیں کہ ایک ولی کو دوسرے ولی کی لذتِ کیف کا تفصیلی علم نہیں ہوتا، اجمالی طورپر تو علم ہو سکتا ہے مگر اللہ کی دوستی اور قرب اور پیار کے تفصیلی مزے کو دوسرا ولی بھی