خزائن القرآن |
|
عَزِیْزٌ اور عَلِیْمٌ کا ربط اور آفتا ب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہواہے اُس اللہ کا جو زبردست طاقت والا اور علم والا ہے اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ ایسا ہو جاتاہے جیسے کھجور کی پُرانی ٹہنی۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے آفتاب اور ماہتاب کے چلنے کے لیے الگ الگ روٹ مقرر کردیئے ہیں۔ سورج اُسی روٹ پر چلتاہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مستقر کر دیا چناں چہ نکلتا کہیں ہے ڈوبتا کہیں ہے، یہاں طلوع ہو رہا ہے امریکا میں غروب ہورہا ہے اور یہ وہی کرسکتا ہے جو زبردست طاقت والا ہو کہ اپنے انتظامات کو نافذ کرسکے اور زبردست علم والا بھی ہوجو اِن انتظامات کی حکمت اور مصلحت جانتا ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی دو صفت عزیز اور علیم نازل فرمائی کہ اللہ وہ ہے جس نے اپنی زبردست طاقت سے سورج اور چاند کو اپنے اپنے مستقر پر ڈال دیا ہے اور وہ اُس کی حکمت ومصلحت بھی جانتا ہے کہ مثلاً چاند اورسورج اور دیگر سیارات کتنے فاصلوں پر رہیں کہ آپس میں نہ ٹکرائیں۔یا مثلاً بقول سائنس دانوں کے سورج ساڑھے نو کروڑ میل پر ہے، اگر اِس سے اور قریب آجائے تو کھیتوں کا غلہ بھی جل جائے اور انسان بھی جل جائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا زبردست علم ہے جس سے سورج کو اتنے فاصلے پر رکھا کہ فوائد حاصل ہوجائیں اور نقصانات نہ پہنچیں یعنی غلہ پک جائے اور جلے نہیں اور انسانوں کو بقدرِ ضرورت روشنی اور گرمی حاصل ہو۔ آگے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہلَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت اور زبردست علم کا بیان ہے کہ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے یعنی قبل از وقت خود طلوع ہو کر چاند کو اور اس کے وقت یعنی رات کو محو کردے جیسا کہ چاند بھی سورج کو اُس کے ظہورِ نور کے وقت نہیں پکڑ سکتا کہ رات آجائے اور چاند کا نور ظاہر ہو جائے اور اسی طرح نہ رات دن کے زمانۂ مقررہ کے ختم ہونے سے پہلے آسکتی ہے جیسے دن بھی رات کے زمانۂ مقررہ کے ختم ہونے سے پہلے نہیں آسکتااور چاند اور سورج دونوں ایک ایک دائرہ میں حساب سے اس طرح چل رہے ہیں جیسے گویا تَیرر ہے ہیں اور حساب سے باہر نہیں ہوسکتے کہ رات دن کے حساب میں خلل واقع ہوسکے۔ ان تمام انتظامات کی مصلحت اور حکمت جاننے کے لیے زبردست علم اور اُن کے نفاذ کے لیے زبردست قدرت کی ضرورت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اسمائے حسنیٰ عَزِیْزٌ اور عَلِیْمٌ نازل فرمائے کہ میں اپنے زبردست علم سے تمام انتظامِ فلکیات و ارضیات کی حکمت و مصلحت جانتا ہوں اور اپنی قدرتِ عظیمہ سے ان کو نافذ کرتا ہوں۔