خزائن القرآن |
|
اللہ تعالیٰ نے آج ایک علمِ عظیم عطا فرمایا کہ جیسے ایک باپ کے کئی بچے ہیں۔ ان میں کچھ قوی ہیں کچھ کمزور ہیں۔ قوی نے کسی کمزور بھائی کے طمانچہ مار کر اس سے کوئی چیز چھین لی تو کمزور چلّاتا ہے کہ ابّا ابّا! دیکھو یہ بھائی مجھے مار رہا ہے۔ یہ کیوں چلّاتا ہے؟ باپ کی شفقت کی وجہ سے۔ معلوم ہوا کہ باپ کی شفقت کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ بچے اس کو پکاریں۔ مغلوب بچے غالب بچوں کے مقابلے میں باپ کو پکاریں۔ میرے قلب کو اللہ نے آج یہ علم عطا فرمایا کہ ماں باپ کی شفقت پر ناز کرنے والو! جس طرح کمزور بچہ اپنے ابّا کو پکارتا ہے تم پر بھی کوئی ظلم کرے تو تم بھی اسی طرح مجھ کو پکارو کہ فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ اے ہمارے پالنے والے! ہم کمزور پڑ گئے، مغلو ب ہوگئے، یہ طاقت والے ہم پر غالب آ گئے، ہم کو ستا رہے ہیں آپ انتقام لیجیے، ہماری فریاد رسی کیجیے، آپ بدلہ لیجیے، ہم بدلہ لینے کے قابل نہیں ہیں پھر جب اللہ بدلہ لیتا ہے تو کیسا لیتا ہے، حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صوفیاء نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کر کے اللہ تعالیٰ کواپنے ساتھ لے لیا اور مخلوق سے اللہ والوں نے انتقام نہیں لیا کیوں کہ انتقام میں کبھی زیادتی ہو جاتی ہے مان لیجیے کہ کسی نے پچاس سینٹی گریڈ سے ایک طمانچہ مارا، کیا انتقام لینے والے کے پاس کوئی ایسا معیار ہے کہ وہ بھی پچاس سینٹی گریڈ سے ہی اس کے طمانچہ مارے۔ امکان ہے کہ زیادتی ہو جائے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ راہ بتائی کہ: وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ لَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۲۶﴾ ؎ اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو جتنا تم کو ستایا گیا ہے اتنا ہی تم بدلہ لے سکتے ہو لیکن بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖمیں مشکلات ہیں، یہ راستہ مشکل ہے کہ بالکل اسی درجہ میں آپ بدلہ لیں، کچھ اعشاریہ بھی اگر زیادتی ہو گئی تو ظالم ہو جاؤ گے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ وَ لَئِنۡ صَبَرۡتُمۡ لَہُوَ خَیۡرٌ لِّلصّٰبِرِیۡنَ اگر تم صبر اختیار کرو تو یہ خیر کا راستہ ہے۔آیت نمبر۹۵ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ؎ ترجمہ: اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو۔ ------------------------------