خزائن القرآن |
|
آپ ہی کا درجہ بلند ہو گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ یہ تینوں علامتیں بیان فرما رہے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو مٹا دیا، جس نے چاروں قسم کے مجاہدات کیے اور میری راہ میں تکلیف اٹھائی اور جس نے اپنے قلب میں سارے عالم کی ملامت سے بے خوفی محسو س کی یہ اس کا کمال نہیں ہے بلکہ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یہ اللہ کی مہربانی ہے یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے پتا چلا کہ ہمیں اللہ کی جتنی بھی نعمتیں ملیں، جو کمالات عطا ہوئے یہی کہے کہ مالک! یہ آپ کا فضل، آپ کی مہربانی ہے، میرا کوئی کمال نہیں۔ آپ کی عطا ہے، آپ کا کرم ہے، آپ کا فضل ہے اور فضلِ محتاج قانون نہیں ہوتا جیسے کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ وہ شخص جس نے سو قتل کیے تھے اور جو توبہ کے ارادہ سے چلا لیکن راستے میں اس کا انتقال ہو گیا اور وارثین سے معافی بھی نہیں مانگ سکا۔ روح نکالنے میں رحمت کے فرشتوں میں اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین کی پیمایش کر لو۔ اگر گناہ کی زمین قریب ہے تو عذاب کے فرشتے اس کی روح لے جائیں اور توبہ کی زمین اورنیک بندوں کی بستی قریب ہے تو رحمت کے فرشتے لے جائیں، جب فرشتوں نے زمین کی پیمایش کی تو اللہ نے گناہ کی زمین کو دور کر دیا اور اللہ والوں کی زمین کو قریب کردیا۔وہ زمین دراصل قریب نہیں تھی اللہ نے حکم دے دیا : تَقَرَّبِیْ اے زمین! تو قریب ہو جا۔فضل قانون سے بالا تر ہے ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ پیمایش کا حکم دینا یہ اللہ تعالیٰ کا عدل تھا اور زمین کو قریب کر دینا یہ اس کا فضل تھا اور فضل پابندِ قانون نہیں ہوتا جیسے آپ دو مزدور لائے اور دونوں کو سو روپے یومیہ پر رکھا۔ شام کو آپ نے دونوں کو حسبِ وعدہ سو سو روپے دیے لیکن ایک مزدور سے چپکے سے کہا کہ قانون سے تم سوروپے کے مستحق تھے جو ہم نے تم کو ادا کر دیے لیکن میں مکہ شریف سے ایک گھڑی لایا تھا، وہ مہربانی کے طور پر تم کو دے رہا ہوں۔ مہربانی اور فضل قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل سے جنّت عطا فرما دیں اگرچہ قانوناً ہم جہنم کے لائق ہوں، سزاکے لائق ہوں لیکن اے خدا! اپنے فضل کے صدقہ میں ہم سب کو بلا استحقاق جنّتی ہونا مقدر فرما دے اور بے حساب مغفرت فرما دے۔ بس آج میرا مقصود یہی تھا کہ میں حکیم الامّت مجدد الملّت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر بیان القرآن کے حاشیہ کے مسئلۂ سلوک کو قرآن پاک کی دلیل سے ثابت کروں کہ حضرت نے جو کچھ فرمایا