خزائن القرآن |
|
ومفاہیم میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے قرآنِ پاک کے الفاظ کی تلاوت مع التجوید وغیرہ کی حفاظت کے لیے دارالعلوم کا قیام بھی ضروری ہے کیوں کہ قرآنِ پاک کے معانی و علوم کا سیکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کے الفاظ و تجوید کا سیکھنا۔ قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی دونوں اہم ہیں اور دونوں کی حفاظت کا خدائی اعلان ہے۔آیتِ قرآنی سے مکاتب و مدارس کے قیام کا ثبوت چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ! میری اولاد میں سے ایک نبی مبعوث فرما یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ جو تیرے کلام کی تلاوت کرے، تیری آیات لوگوں کو سنائے وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ اور کتاب اللہ کی تعلیم دے۔ اس آیت کی علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تفسیر کی اَیْ یُفَھِّمُھُمْ اَلْفَاظَہٗ جو الفاظ قرآنِ پاک کے معانی بتائے وَ لَھُمْ کَیْفِیَّۃَ اَدَآءِہٖاور ان الفاظ کی کیفیت ادا بھی سکھائے۔؎ اس آیت سے قراء ت کا بھی ثبوت ملتا ہے اور تعلیم کتاب کا بھی۔ لہٰذا حفظِ قرآن کے مدارس کا قائم کرنا اور تعلیم کتاب اللہ کے لیے دارالعلوم کا قیام بھی مقاصدِ بعثت نبوتِ میں سے ہے۔ لہٰذا جن ماں باپ نے اپنے بچوں کو حافظ بنایا، جن اساتذہ نے بچوں کو قرآنِ پاک حفظ کرایا، جن لوگوں نے یہ مدارس قائم کیے اور ان کا اہتمام و انتظام چلایا، جن لوگوں نے ان مدارس کے قیام میں مالی یا جانی کسی نوع کی اعانت کی وہ سب خوش نصیب ہیں، ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کیوں کہ وہ سب کے سب وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ کی خدائی ذمہ داری کے افراد اور رکن ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک کی طرف سے قرآنِ مجید کی حفاظت اور کفالت کا جو وعدہ ہے یہ سب کے سب ظاہری ارکانِ کفالت اور ممبرانِ کفالت ہوگئے اور اس میں شامل اور منتخب ہو کر اللہ کے پیارے ہوگئے۔ قرآن پاک کی خدائی حفاظت کے اعلان میں وہ سب قبول کیے گئے۔آیتِ شریفہ کی شرح بعنوانِ دِگر اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ تو یہاں نَحْنُ کیوں نازل فرمایا ہے جب کہ اللہ واحد ہے اور عربی قاعدے سے واحد متکلم کے لیےاَنَا آتا ہے ------------------------------