خزائن القرآن |
|
یعنی قلب پر مشاہدۂ حق ایسا غالب ہو جائے کہ گویا آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔دل میں جب اللہ تعالیٰ کو پاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قرب کی لذت کو چکھتا ہے، دل میں اللہ تعالیٰ کو محسوس کرنے لگتا ہے تو غلبۂ قربِ حق سے یہ آسمان بھی اس کے لیے حجاب نہیں رہتے۔ اس پر اختر کا ایک شعر ہے جو آپ سے خطاب کر رہا ہے ؎ گزرتا ہے کبھی دل پر وہ غم جس کی کرامت سے مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہےایمانِ عقلی، استدلالی، موروثی و ایمانِ ذوقی، حالی، وِجدانی کی تمثیل قلب میں اس ایمانی کیفیت کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک دریا ہے جس میں پانی نہیں ہے خشک ہے، خاک اُڑا رہا ہے اس وقت دریا پانی پر کیسے ایمان لائے گا؟ عقل سے، دوسرے دریاؤں سے سن کر کہ پانی ایسا ہوتا ہے لیکن جب اس کے اندر پانی آ جائے گا اس وقت اس کا ایمان کیسا ہو گا؟ ذوقی، حالی، وجدانی پھر وہ دلیل نہیں مانگے گا کہ ہم کو پانی کی دلیل چاہیے۔ وہ تو کہے گا کہ میرے سینہ کے اندر تو خود پانی لبالب بہہ رہا ہے، دور دور میری ٹھنڈک جا رہی ہے، میں اپنے اندر پانی کو محسوس کر رہا ہوں، پار ہا ہوں، مجھے دلیل کی کیا ضرورت ہے۔ جس دریا کے اندر پانی ہوتا ہے دور دور تک اس کی ٹھنڈک جاتی ہے۔ ایک میل پہلے ہی سے ہواؤں کی ٹھنڈک بتا دیتی ہے کہ آگے دریا قریب ہے۔ اسی طرح قلب میں پہلے ایمانِ عقلی و استدلالی ہوتا ہے، عقل سے، استدلال سے، دوسروں سے سن کر وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے لیکن سکینہ کا نور عطا ہونے کے بعد اب وہ ایمان، ایمانِ ذوقی، حالی، وجدانی سے تبدیل ہوجاتا ہے، دل میں وہ اللہ تعالیٰ کا قرب محسوس کرتا ہے، اللہ کو دل میں پاتا ہے، اس احسانی کیفیت کو صوفیاء حضرات نسبت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کوئی بندہ کسی بستی میں صاحبِ نسبت اللہ والا ہو جاتا ہے تو اس کی ٹھنڈک دور دور تک جاتی ہے، دور دور اس کا فیض جاتا ہے۔ ہزاروں بندے اس کے فیضِ صحبت سے اللہ والے بن جاتے ہیں آیت لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ میں صوفیاء کی اصطلاح نسبتِ خاصہ کا ثبوت ہے۔ذکر اللہ سے نزولِ سکینہ کی دلیلِ نقلی اور ایک علمِ عظیم اب یہ ایمانِ ذوقی، حالی، وجدانی یعنی نسبتِ خاصہ مع اللہ کیسے حاصل ہو اس کو بیان کرتا ہوں اور یہ ایک علمِ عظیم ہے جو حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اختر کو بنگلہ دیش میں عطا فرمایا۔ مسلم شریف کی روایت