خزائن القرآن |
|
کردیتا ہے کَذَا فِیْ مُوْضِحِ الْقُرْاٰنِاور بعض نے یہاں قرب کے معنیٰ لیے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِہٖیعنی وہ بندہ کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کا دل بھی اتنا قریب نہیں وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ۔ تو خدا کی حکم بر داری سچے دل سے کرو، خدا تم سے بڑھ کر تمہارے دلوں کے احوال واسرار پر مطلع ہے، خیانت اس کے آگے نہ چلے گی۔ اسی کے پاس سب کو جمع ہونا ہے، وہاں سارے اسرار کھول کر رکھ دیے جائیں گے۔آیت نمبر ۳۵ وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۳۳﴾ ؎ ترجمہ: اور اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کریں گے کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دیں گے جس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے رہتے ہیں۔ کافر لوگ طواف کی حالت میں کہتے تھے: غُفْرَانَکَ اے خدا! ہم کو بخش دے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میںیہ آیت کافروں کے لیے نازل فرمائی وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ اے نبی! جب تک آپ ان کافروں میں زندہ ہیں اس وقت تک میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔ حکیم الامت مجدد الملّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں اس کی تفسیر میں فرمایاکہ اللہ نے کافروں کو جو بشارت دی ہے وہ دنیا کے لیے ہے کہ اگر کافر بھی استغفار کرتا رہے تو دنیا میں اس پر عذاب نہیں ہو گا لیکن آخرت کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا بوجہ ایمان نہ لانے کے۔ محدثِ عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اِذَا کَانَ الْاِ سْتِغْفَارُ یَنْفَعُ الْکُفَّارَ فَکَیْفَ لَا یُفِیْدُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْاَبْرَارَ؎ یعنی جب استغفار کافروں کو بھی نفع دے ------------------------------