خزائن القرآن |
|
فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ… الخ میں اہلِ ذکر سے مراد علماء ہیں تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے جمع کے صیغہ سے نازل فرمایا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ کہ ہم نے ذکر کو نازل کیا۔ یہاں پر میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری ایک عجیب علمِ عظیم بیان فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کو اہلِ ذکر فرمایا ہے اور قرآنِ شریف کو ذکر فرمایا ہے تو معلوم ہوا کہ علماء کو زیادہ تلاوت کرنی چاہیے اور فرماتے تھے کہ جو عالم اللہ کو یاد نہ کرے وہ عالم نہیں ہے بلکہ ظالم ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کا نام اہلِ ذکر رکھا ہےفَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ؎ اگر تم لَا تَعْلَمُوْنَ ہو تو یَعْلَمُوْنَ لوگوں سے پوچھو جن کو اہلِ ذکر سے تعبیر فرمایا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَلْمُرَادُ بِاَھْلِ الذِّکْرِ عُلَمَآءُ اَخْبَارِ الْاُمَمِ السَّالِفَۃِ ؎ اہلِ ذکر سے مراد علماء ہیں جو تمام اممِ سالفہ کے حالات سے باخبر ہیں۔علماء کو اہلِ ذکر فرمانا ذکر کی تلقین ہے میرے شیخ فرماتے تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ اہلِ ذکر فرما دیں کہ یہ ہم کو یاد کرنے والے لوگ ہیں، جن کے علم کی تعبیر ذکر سے ہوئی ہو وہ عالم بھی اگر مالک کو کم یاد کرے تو وہ عالم ہے یا ظالم ہے اور ہمزہ سے آلم ہونا تو بہت آسان ہے، الم پہنچانا، ایک دوسرے کو اذیت پہنچاتے ہیں حالاں کہ ہمیں آپس میں محبت سے رہنا چاہیے۔ اے اللہ! جب آپ کے نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ شان ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام میں یہ شان ہے کہ جب بھائیوں نے کہا: اے یوسف! اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟ تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ کہ تم پر آج کوئی الزام نہیں، ہم نے سب معاف کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مکہ کے کافروں نے پوچھا کہ آج تو مکہ فتح ہوگیا، اب آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی معاملہ کروں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا اور فرمایا تھا لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ اے اللہ! جب آپ کے انبیاء میں رحمت کی یہ شان ہے تو اے اللہ! آپ تو خالقِ انبیاء ہیں آپ کی شانِ رحمت کیا ہوگی؟ اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ ------------------------------