خزائن القرآن |
|
نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا اُن ہی کا اُن ہی کا ہوا جا رہا ہوںایک اِشکال اور اس کا جواب ایک اِشکال یہ ہے کہ تجاذب کے لیے ہم جنس ہونا شرط ہے بقاعدہ مشہورہ ؎ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز تو حق تعالیٰ تو ہمارے ہم جنس نہیں ہیں، وہ پاک ہیں اور ہم نا پاک، وہ باقی ہیں اور ہم فانی۔ تو جواب یہ ہے کہ جذب کے لیے ہم جنس ہونا جو مشروط ہے وہ جذبِ طبعی کے لیے ہے لیکن جذبِ عقلی اور جذبِ ارادی کے لیے ہم جنس ہونا شرط نہیں۔ جس طرح انسان اپنے جانور کو چروا ہی کے وقت دوسروں کے کھیتوں سے اپنی طرف کھینچتا ہے کہ خیانت نہ ہو جائے پس یہ جذب عقلی اور ارادی ہے نہ کہ طبعی کیوں کہ انسان اور جانور کے طبائع ہم جنس نہیں ہیں البتہ اس مثال میں انسان کبھی اپنے جذب میں نا کام ہو سکتا ہے مثلاً جانور مضبوط ہو جیسا کہ قربانی کے جانور بعض وقت ہاتھ کی گرفت سے نکل جاتے ہیں اگرچہ گرفت کتنی ہی مضبوط رکھی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا جذب کبھی نا کام نہیں ہوسکتا کیوں کہ ان کی گرفت اور قوتِ جذب غالب ہے اور ہماری قوتِ گریز مغلوب ہے اگرچہ نفس و شیطان اور اسبابِ معاصی اور تمام اہلِ زمانہ اپنی اجتماعی قوت سے اس نفسِ امارہ بالسّوء کی اعانت بھی کریں تب بھی وہ ذاتِ پاک ہمارے جذب پر غالب ہی ہو گی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اَنْفُسَھُمْ فرمایا قُلُوْبَھُمْ اور اَرْوَاحَھُمْ نہیں فرمایا اس کی کیا وجہ ہے؟ فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ جو کریم ہوتا ہے وہ بازار میں عیب دار سودے کو خریدتا ہے تاکہ اس کا مالک جو سمجھتا ہے کہ میرے اس عیب دار مال کو کون خریدے گا خوش ہو جائے تو قلب اور روح کے مقابلے میں نفس چوں کہ عیب دار سودا تھا اس لیے اس کریم مالک نے اس کو خریدنے کی بشارت دے دی تاکہ بندے خوش ہو جائیں کہ ہمارا عیب دار سودا خرید لیا گیا۔