خزائن القرآن |
|
مخلوق میں غور کرتے ہیں کہ کیا شان ہے اس کی! اتنی بڑی دنیا جس پر ہم بیٹھے ہیں چوبیس ہزار میل کا دائرہ ہے اور آٹھ ہزار کا قطر ہے، پہاڑ اور سمندر سب بھرا ہوا ہے، نیچے کوئی ستون، سپورٹنگ پلر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہے، اتنے بڑے مالک ہیں کہ جو زمین کو، ستاروں کو ،سورج کو ،چاند کو بغیر تھونی کھمبا قائم کیے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کیا پھر اپنے بندے کے دل کو دین پر قائم نہیں رکھ سکتے مگر چاہتے ہیں کہ پہلے فریاد کرو پھر دیں گے۔ذکر برائے خالق ، فکر برائے مخلوق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری عظمتوں کی پہچان کے لیے میری مخلوقات میں غور کرو، میری پرورش اور ربوبیت میں آسمانوں، زمینوں، سورج اور چاند،پہاڑوں اور سمندروں میں غور کرو کہ میں کتنا عظیم الشان ہوں۔ یہی میرے اللہ ہونے کی دلیل ہے، میری مخلوق میں فکر کرو۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لیے فکر کا لفظ نازل کیا اور اپنے نام کے لیے ذکر کا لفظ نازل کیا یَذْکُرُوْنَ اللہَ نازل کیا اور وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ نازل فرمایا۔ حکیم الامت قرآن پاک کی تفسیر بیان القرآن کے حاشیہ مسائل السلوک میں فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ فکر برائے مخلوق اور ذکر برائے خالق ہے۔ آہ! کیا علوم ہیں ہمارے بزرگوں کے۔ممانعتِ تفکر فی اللہ کی حکمت اور حدیثِ پاک میں اللہ کی ذات میں فکر کرنے سے کیوں منع کیا گیا؟ لَا تَتَفَکَّرُوْا فِی اللہِ ا للہ کی ذات کے بارے میں مت سوچو کہ وہ کیسے ہیں؟ اس کی علّت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی فَاِنَّکُمْ لَنْ تَقْدِرُوْا قَدْرَہٗ فا تعلیلیہ ہے پس تحقیق چوں کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کو عقل کی ڈبیہ میں، عقل کے برتن میں نہیں لا سکتے ہو۔ عقل تمہاری محدود، اللہ تعالیٰ کی ذات غیر محدود۔ پس غیر محدود کو محدود میں کیسے لایا جا سکتا ہے ؟ صراحی اپنے اندر مٹکے کو نہیں لا سکتی، مٹکا اپنے اندر حوض کو نہیں لا سکتا، حوض اپنے اندر دریا کو نہیں لاسکتا، دریا اپنے اندر سمندر کو نہیں لا سکتا جب کہ یہ سب محدود ہیں۔ جب چھوٹے محدود بڑے محدود کو اپنے اندر نہیں سما سکتے تو خدائے تعالیٰ تو غیر محدود ہیں، ہم محدودوں کے اندر وہ کیسے آ سکتے ہیں۔