خزائن القرآن |
|
وہ مؤثر ہوتا ہے، غالب ہوتا ہے ۔ ۳)… اَلَّذِیْ یَبْذُ لُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَا مَحْبُوْبِہٖ؎ صدیق وہ ہے جو دونوں جہاں اللہ پر فدا کر دیتا ہے۔ ابھی کل میں نے عرب کے کچھ لوگوں کے سامنے یہ تعریف پیش کی تو ایک الجزائری نے پوچھا کہ میں دنیا تو اللہ پر فدا کر سکتا ہوں فَکَیْفَ اُفْدِی الْاٰخِرَۃَ لیکن آخر ت کو کوئی انسان کس طرح فدا کر سکتا ہے۔آخرت کو اللہ پر فدا کرنے کے معنیٰ میں نے جواب دیا کہ آخرت کو فدا کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ نیک کام اللہ کی رضا کے لیے کرو، جنّت کی لالچ میں نہ کرو۔ اللہ کی رضا درجۂ اوّلین میں ہو، جنّت کو درجۂ ثانوی میں کر لو۔ نیت یہ ہو کہ اے اللہ! میں یہ عمل جنّت کے لیے نہیں کر رہا ہوں آپ کو خوش کرنے کے لیے کر رہا ہوں لیکن چوں کہ جنّت آپ کا محلِ لقاء اورمحلِ دیدار ہے اس لیے جنّت کا بھی سوال کرتا ہوں لیکن مقصود آپ کی رضا ہے۔ بس آپ نے آخرت فدا کردی،جنّت کو اللہ پر فدا کر دیا اور دوزخ کے ڈر سے گناہ مت چھوڑو، اللہ کی ناراضگی کے خوف سے چھوڑو۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے گناہ چھوڑو اور جہنم کو درجۂ ثانوی میں کر لو ان شاء اللہ! آپ نے جنّت و جہنم اور آخرت کو فدا کر دیا۔ یہ سن کر اس عرب نے کہا:سبحان اللہ اور بہت خوش ہوا اور یہ میں نے کہاں سے حاصل کیا؟ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست دل میں یہ شرح عطا فرمائی۔ اس کے بعد حدیثِ پاک کی دلیل بھی مل گئی۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ؎ اے خدا! میں تجھ سے تیری رضا اور تیری خوشی مانگتا ہوں اور جنّت کو بعد میں مانگتا ہوں۔ جنّت کو بعد میں بیان کیا پہلے کیا مانگا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ اے اللہ! میں تیری رضا چاہتا ہوں وَالْجَنَّۃَ اور جنّت بھی۔ جنّت کو درجۂ ثانوی میں کیا اور وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ میں تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں وَ النَّارِاور دوزخ سے۔ دوزخ کو درجۂثانوی میں کیا۔ پہلے اللہ کی ناراضگی سے پناہ مانگی۔ اس حدیث سے اخترؔ نے یہ سمجھا کہ آخرت یوں فدا کی جاتی ہے۔ بس صدیق کی آخر ی تعریف ہے ------------------------------