خزائن القرآن |
|
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مَرْفُوْعًا مَّنِ اسْتَرْجَعَ عِنْدَ الْمُصِیْبَۃِ جَبَرَ اللہُ تَعَالٰی مُصِیْبَتَہٗ وَاَحْسَنَ عُقْبَاہُ وَجَعَلَ لَہٗ خَلْفًا صَالِحًا یَّرْضَاہُ؎ ترجمہ: جس شخص نے مصیبت پر اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا اللہ تعالیٰ شانہ اس کی مصیبت کے نقصان کی تلافی فرماتے ہیں اور اس کے عقبیٰ کو احسن کر دیں گے اور اس کو ایسا نعم البدل عطا فرمائیں گے جس سے وہ خوش ہو جائے گا۔آیتِ شریفہ کی تشریح بعنوانِ دگر جس کے یہاں کوئی صدمہ اور غم پہنچ جائے وہاں حاضر ہونا اور کچھ تسلی کے کلمات پیش کرنااس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سنّت قرار دیا ہے۔ تعزیت کے معنی ہیں تسلی دینا۔ اس لیے تعزیت سنّت ہے اور سنّت کی برکت سے اللہ تعالیٰ غم زدہ دلوں پر سکون و تسلی کا مرہم عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر رحم فرماتے ہوئے ایسے وقت ایک دوسرے کے گھر جانا اور تسلی دینا سنّت قرار دے دیا اور تسلی (تعزیت) کو تین روز تک کے لیے سنّت قرار دیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ تین دن کے بعد غم گھٹنے لگتا ہے، تین دن تک غم اپنے جوش پر ہوتا ہے لہٰذا تین روز تک تسلی دینا سنّت ہے، اس کے بعد مسنون نہیں، تین دن کے بعد یہ غم آہستہ آہستہ ہلکا ہوتے ہوئے سال دو سال کے بعد آپ کو یاد بھی نہیں آئے گا کہ دل پر کیا سانحہ گزرا تھا، تصور میں تو آئے گا کہ میری ماں نہیں ہے لیکن ایسا غم نہیں ہو گا جیسا اُس وقت تھا۔ میری والدہ کا ناظم آباد میں جب انتقال ہوا تقریباً پندرہ سال پہلے تو مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ بس ان کی کوئی چیز دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، ان کی چارپائی دیکھ کر، ان کا پاندان دیکھ کر دل رونے لگتا تھا۔ لہٰذا میں اپنے دوستوں میں دل بہلانے کے لیے ٹیکسلا چلا گیا لیکن آج غم کاکوئی ایک ذرّہ معلوم نہیں ہوتا۔ بس ایک ہلکا سا خیال تو ہوتا ہی ہے ماں باپ کا، ماں باپ کی محبت کو تو کوئی شخص بھول سکتا ہی نہیں۔ اس لیے ماں باپ کے لیے اللہ تعالیٰ دعا سکھا رہے ہیں۔ قرآن مجید میں آیت نازل کر دی کہ تم اللہ سے یوں کہو: رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ؎ ------------------------------