خزائن القرآن |
|
کرو بلکہ ان کو عنایاتِ الٰہیہ کا ثمرہ سمجھو۔عنایاتِ الٰہیہ کو ثمرۂمجاہدات سمجھنا نا شکری ہے یہ ایک مسئلہ حضرت نے لکھا جس کی عربی عبارت پیش ہے تاکہ علماء حضرات کو لطف آ جائے: فَاِنَّ بَعْضَ الْمُغْتَرِّ یْنَ مِنَ الصُّوْفِیَاءِ وَالسَّالِکِیْنَ یُنْسِبُوْنَ کَمَالَاتِھِمْ اِلٰی مُجَاھَدَاتِھِمْ وَھٰذَا عَیْنُ الْکُفْرَانِ یعنی بعض نادان صوفی اپنے کمالات کی نسبت اپنے مجاہدات کی طرف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عنایات وفضل کی طرف نہیں کرتے،یہ سخت نا شکری ہے۔ ان کویہی کہنا چاہیے کہ اے اللہ! آپ کی تمام مہربانیوں کا سبب آپ کی مہربانی ہے، آپ کی رحمت کا سبب آپ کی رحمت ہے، آپ کے کرم کا سبب آپ کا کرم ہے، ہمارا کوئی عمل اس قابل نہیں ہے جو سبب بن سکے آپ کے کرم کا۔ اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں عطا فرمائی جس سے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ بندہ روزے رکھے، حج کرے، عمرہ کرے، تہجد پڑھے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کو اپنے اعمال کی طرف نسبت نہ کرے، نیکی کر دریا میں ڈال، اپنی نیکیوں کو بھول جائے، جو کچھ ملے اس کو اللہ تعالیٰ کا کرم سمجھے۔قرآنِ پاک سے استدلال اس مثال سے پہلے ایک استدلال پیش کرتا ہوں جو میرے رب نے ابھی ابھی مجھے عطا فرمایا۔ قرآن شریف کی آیت اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈال دی کہ مثال سے پہلے تم میرے کلام سے ثبوت پیش کرو: مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ؎ تجھ کو جو نیکی ملے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تجھ سے برائی صادر ہو وہ تیرے نفس کی شرارت اور بد معاشی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ دنیا میں تم کو جو بھلائی ملے، اولاد ملے، روزی ملے، علم ملے، تقریر کرنی آجائے، کوئی بھی نعمت ملے فَمِنَ اللہِ وہ اللہ کی عطا ہے۔ اگر ہم کو اپنے عمل کی طرف نسبت کرنے کی ہدایت ہوتی تو ------------------------------