خزائن القرآن |
|
یہ مجددِ زمانہ حکیم الامت کی زبان سے سنیے کہ اگر ایک دفعہ گناہ کا وسوسہ آیا اور پھر ختم ہوگیا تو سمجھ لو کہ یہ شیطان تھا بہکا کر چلا گیا لیکن جب گناہ کا تقاضا بار بار ہو تو سمجھ لو کہ یہ اندر کا دشمن نفس ہے جو پہلو میں بیٹھا ہوا بار بار تقاضا کر رہا ہے کہ یہ گناہ کر لو، یہ گناہ کر لو اور گھر کا دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔شیطان کا نہایت پیارا خلیفہ شیطان تو بہت مصروف یعنی ’’بزی busy‘‘شخصیت ہے، اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ ایک ہی آدمی کے پیچھے لگ جائے اس لیے ایک دفعہ بہکا کر خود تو چلا جاتا ہے لیکن اپنا خلیفہ یعنی نفسِ امارہ چھوڑ جاتا ہے جو اس کا بہت ہی پیارا اور فرماں بردار خلیفہ ہے جو گناہ کا بار بار تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اللہ والوں کا فیض منتقل ہونے کا ایک راستہ معلوم ہو گیا کہ ان کے ارشادات میں ہدایت ہوتی ہے، نفس و شیطان و معاشرہ کے شر سے بچنے کے داؤ پیچ معلوم ہوتے ہیں۔اہل اللہ کا نورِ باطن منتقل ہونے کے دو راستے ان کی صحبت سے ان کے قلب کا نور ہمارے قلب میں دو طرح سے داخل ہوتا ہے ایک تو یہ کہ قلب سے قلب میں فاصلے نہیں ہیں۔ اجسام میں تو فاصلے ہوتے ہیں لیکن دلوں میں فاصلے نہیں ہیں جیسے ایک بلب یہاں جل رہا ہے اور دوسرا وہاں جل رہا ہے، تیسرا اور فاصلے پر جل رہا ہے تو بلب کے اجسام میں تو فاصلے ہیں لیکن روشنی میں فاصلے نہیں ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بلب کی روشنی یہاں تک ہے اور فلاں کی وہاں تک ہے، نور کی کوئی حدِّ فاصل نہیں ہوتی، نور مخلوط ہوتا ہے۔ پس جب ہم اللہ والے کے پاس بیٹھیں گے تو اس مجلس میں اس اللہ والے کا نور اور طالبین کا نور سب کی روشنیاں آپس میں مل جائیں گی اور نور میں اضافہ ہو جائے گا اور قوی النور شیخ کے نور سے مل کر ضعیف النور طالبین کا نور بھی قوی ہو جائے گا اور نور منتقل ہونے کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اللہ والے جب اپنے ارشادات سے اللہ کا راستہ بتاتے ہیں توکیا ہوتا ہے؟ اس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ؎ شیخِ نورانی ز رہ آگہہ کند نور را با لفظہا ہمرہ کند اللہ والے، صاحبِ نور اللہ کا راستہ بھی بتاتے ہیں اور اپنے نورِ باطن کو اپنے لفظوں کے کیپسول میں رکھ کر