خزائن القرآن |
|
محتاج ہو۔ ہدایت کے لیے صرف فیضِ نبوت کافی نہیں بلکہ میری مشیت بھی ضروری ہے کیوں کہ میرے نبی کو تو ابو جہل نے بھی پایا، ابو لہب نے بھی دیکھا لیکن ان کو کیوں ہدایت نہیں ہوئی۔ اگر نبی کے لیے ہدایت لازم ہوتی تو ابوجہل بھی کافر نہ رہتا، ابو لہب بھی کافر نہ رہتا لیکن کیوں کہ میری مشیت نہیں تھی اس لیے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زبردست انوارِ نبوت کے باوجود ان اشقیاء کو ہدایت نہ ہوئی۔ تو معلوم ہوا کہ تین چیزوں سے ہدایت ملتی ہے۔ (۱) اللہ کا فضل (۲) اللہ کی رحمت (۳) اللہ کی مشیت۔ لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ دو رکعت حاجت پڑھ کریہ بھی مانگیں کہ اے اللہ! اپنا وہ خاص فضل اور وہ رحمت اور مشیت عطا کر دے جس پر قرآنِ پاک میں آپ نے تزکیۂ نفس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس عنوان سے مانگ کے تو دیکھو جو اختر سکھا رہاہے۔تزکیہ کا سببِ حقیقی فضل و رحمت و مشیتِ الٰہیہ ہے اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو شیخ بھی کسی کے اصلاح و تزکیہ میں مفید نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی حفاظت کی، صحابہ سے فرما رہے ہیں کہ میرا نبی دنیا میں ہدایت کا سب سے بڑا مظہر ہے، مظہرِ اتم ہے لیکن مظہرظہور پر تو قادر ہے ،اظہار پر قادر نہیں ہے۔ ہدایت کی تجلی کو ہمارا نبی بھی تم پر اظہار نہیں کر سکتا، میری مشیت سے ظہور کر سکتا ہے۔ اگر اللہ کی رحمت و فضل نہ ہو تو قیامت تک تم میں سے کوئی پاک نہیں ہو سکتا لیکن جب میری مشیت شامل ہوتی ہے تو ان مظاہرِ ہدایت کے ظہور میں اظہار کا حکم لگا دیتا ہوں کہ اب ظاہر کر دو، تو میری مشیت سے بندوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ مظہرظہور کی جگہ ہے مگر وہ تابع ہے اس مظہر کے، مشیتِ ا لٰہیہ کے۔ لہٰذا صحبتِ شیخ کے ساتھ یہ بھی دعا کرنا چاہیے کہ اے اللہ! ہمارا اختیار یہاں تک تھا کہ اپنے کو شیخ کی خدمت میں حاضر کر دیا اب آپ اپنا وہ فضل، وہ رحمت، وہ مشیت جو اس آیت میں مذکور ہے ہمارے شاملِ حال کردیجیے تاکہ ہمارا تزکیہ ہو جائے کیوں کہ تزکیہ کا اصل سبب آپ کا فضل و رحمت و مشیت ہے لہٰذا ہم اس کی آپ سے فریاد کرتے ہیں۔آیت نمبر۶۲ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ ؎ ترجمہ: آپ مسلمان مَردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ ------------------------------