خزائن القرآن |
|
لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ جملہ اسمیہ سے نازل ہونے کا راز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ بے شک نفس امارہ بالسّوء ہے یعنی کثیر الامر بالسّوء ہے، برائی کا بہت زیادہ حکم کرنے والا ہے اور’’ اِنَّ ‘‘داخل کر کے جملۂ اسمیہ کیوں نازل فرمایا؟ اس لیے کہ عربی قواعد کے لحاظ سے جملۂ اسمیہ دوام اور ثبوت پر دلالت کرتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ نفس جو ان ہو یا بڈھا ہو اس سے ہمیشہ آخری سانس تک ہو شیار رہو، یہ ہمیشہ کثیر الا مر بالسوء ہے ، ہمیشہ کثرت سے برائیوں کا حکم دیتا رہے گا، اس لیے جن لوگوں کے بال سفید ہو گئے ان کو پریشان نہ ہونا چاہیے کہ اب بھی ہم کو نگاہوں کے وسوسے آتے ہیں اور وہ مایوس ہونے لگتے ہیں کہ کب تک یہ کمبخت ہم کو پریشان کرے گا۔ جملۂاسمیہ سے دوام پر دلالت کرکے اللہ تعالیٰ نے نفس کی فطرت بیان کر دی ہے کہ یہ ہمیشہ کثیر الامر بالسوء رہے گا، برائیوں کی طرف تقاضا کرے گا۔نفس کے خلاف جہاد کا طریقہ لیکن تقاضوں سے نہ گھبرانا، تقاضوں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک تم ان تقاضوں پر عمل نہ کرو، لہٰذا اس کے حرام تقاضوں پر غم نہ کرنا۔ اگر روزہ ہے اور آپ کا سو مرتبہ پانی پینے کو دل چاہا، شدید تقاضا ہوا لیکن آپ نے پیا نہیں تو بتائیے آپ کا روزہ ہے یا نہیں؟ لہٰذا جس طرح پیاس کا تقاضا ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اسی طرح برے تقاضوں سے تقویٰ نہیں ٹوٹتا جب تک ان تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے۔ جس کو روزہ میں سو مرتبہ پانی پینے کا تقاضا ہوا اور اس نے نہیں پیا تو اس کے روزے کا اجر زیادہ ہو جائے گا۔ ایسے ہی ہزار مرتبہ دل میں گناہ کا تقاضا ہو مثلاً بد نظری کا یا کسی اورگناہ کا تو اس سے اجر اور بڑھتا ہے اور تقاضے سے تقویٰ نہیں ٹوٹتا جب تک کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے ۔ حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے کیا عمدہ مثال دی کہ تقویٰ سے رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا با وضو رہنا آسان ہے۔ وضو میں کیا ہوتا ہے؟ اگر وضو ٹوٹ گیا تو آپ دوبارہ وضو کر لیتے ہیں اسی طرح اگر تقویٰ ٹوٹ جائے تو توبہ کر کے دوبارہ تقویٰ کے لیے کمر باندھ لیجیے کہ یااللہ! مجھ سے نالائقی ہوئی، آیندہ آپ کو ناراض نہیں کروں گا اور گناہ سے پہلے نفس سے پوری لڑائی لڑیے، پورا مقابلہ کیجیے، جہاد کا حق ادا کیجیے، یہ نہیں کہ نفس کان پکڑ کر تمہیں گدھے کی طرح جدھر چاہے لے جا رہا