خزائن القرآن |
|
وہ کسی مؤمن کاخون بہا سکتے، اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور عظمت کی شہادت کے لیے ان کو منتخب فرمایا تاکہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ یعنی نبیّین، صدیقین اور صالحین کے ساتھ شہداء کا ایک گروہ بھی روئے زمین پر موجود رہے ورنہ کفار قرآن پاک کی صداقت پر اعتراض کرتے کہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ میں شہداء کے مصادیق کہاں ہیں۔ لہٰذا ایک طبقہ پیدا فرمایا کہ تم لوگ مجھ پر اپنی جانوں کو فدا کر دو اور اپنے خون سے میری محبت کی تاریخ لکھ دو۔ اب اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر بندوں کی جان فدا کرنے کا حکم کیوں دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو خدا ہم کو زندگی عطا کر سکتا ہے وہی خدا شہادت کا حکم دے کر ہماری زندگی کو اپنے اوپر فدا کرنے کا بھی حق رکھتاہے۔ جو ہم کو عدم سے وجود میں لاتا ہے وہ اگر کہہ دے کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کر دو تو اس میں تم کو کیا اِشکال ہے۔ جب ہم تم کو زندگی دینے پر قادر ہیں اور ہم تم کو زندگی عطا کرتے ہیں تو ہمیں تمہاری زندگی لینے کا حق حاصل ہے۔ جب ہم تم کو حیات دے سکتے ہیں تو تمہاری حیات اپنے اوپر فدا کرنے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ ہماری عطائے حیات ہمارے ہی لیے فدائے حیات ہے۔ ہماری طرف سے عطائے حیات کے بعد فدائے حیات کا حکم ظلم نہیں ہے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم تم کو زندگی دیں اور پھر حکم دے دیں کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کرو تاکہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کا یہ طبقۂ شہداء قیامت تک زندہ رہے۔ اگر شہادت کا باب بند ہوتا تو قرآن پاک کی اس آیت مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ؎ میں شہداء کے مصادیق کہاں ملتے لہٰذا قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا اور شہید ہوتے رہیں گے۔جس نے زندگی دی ہے شہداء اسی پر اپنی زندگی فدا کرتے رہیں گے۔آیت نمبر۷۰ فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ ؎ ترجمہ: سو کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانۂ غیب میں موجود ہے، یہ ان کو ان کے اعمال کا صلہ ملا ہے۔ اللہ والوں کی ارواح کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو اتصال و قرب حاصل ہے وہ بے کیف اور بے قیاس ہے۔ یہاں تک کہ ------------------------------