خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۲ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ؎ ترجمہ: بند لگا دیا ہے اﷲ تعالیٰ نےان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے سزا بڑی ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ جب اللہ نے مہر لگا دی تو ایمان نہ لانے میں اہلِ کفر کا معذور ہونا لازم آتا ہے تو اس کا جواب حکیم الامت نے بیان القرآن میں دیا کہ ان کے مسلسل کفر و طغیان اور بغض و عناد اور مخالفتِ حق کے سبب ان کے اندر قبولِ حق کی استعداد ہی ختم ہوگئی حالاں کہ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے اندر قبولِ حق کی استعداد رکھ کر دنیا میں بھیجا ہے لیکن آدمی اپنی اغراضِ نفسانی و خود غرضی اور ضد اور سرکشی کے سبب حق کی مخالفت کرتا ہے جس سے وہ استعداد فنا ہو جاتی ہے۔لہٰذا جب انہوں نے طے کرلیا کہ ہم تمام عمر کفر پر قائم رہیں گے اور کبھی ایمان نہ لائیں گے، ہمیشہ حق کی مخالفت کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی کہ جب تم نے قبولِ حق کی اپنی استعداد ہی برباد کر لی تو جاؤ اب کفر ہی پر مرو تو اس مہر لگانے کا سبب ان کا کفر ہے نہ کہ یہ مہر اُن کے کفر کا سبب ہے یعنی ان کے مسلسل کفر کے سبب یہ مہر لگا دی گئی یہ نہیں کہ مہر لگانے سے کفر اُن کا مقدر ہوا۔ اور اس کی مثال حضرت حکیم الامت نے عجیب دی کہ جیسے کوئی کریم کسی مفلس کا ہزار روپے وظیفہ مقرر کردے لیکن وہ نالائق بجائے قدر کرنے کے ہزار روپے کے نوٹوں کو جلا کر ضایع کر دیتا ہے۔ کریم نے بارہا اس نا معقول حرکت سے منع بھی کیا لیکن وہ نالائق اپنی حرکت سے باز نہیں آتا تب وہ کریم اعلان کرتا ہے کہ اس نے مسلسل ہمارے عطیہ کی نا قدری کی لہٰذا اب ہم اس کا وظیفہ بند کرتے ہیں اور اب کبھی اس کو وظیفہ نہ دیں گے۔ بس یہی ہے خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡاور قرآن پاک کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے چناں چہ اس آیت کی تفسیر دوسری آیت میں ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ------------------------------