خزائن القرآن |
|
کہوں میں کس طرح سے شان اِن اللہ والوں کی لباسِ فقر میں بھی شانِ سلطانی نہیں جاتی لہٰذا دردِ دل سے کہتا ہوں کہ اے جوانو! جن پرجوانی چڑھ رہی ہے، جن کی جوانی کا آغاز ہو رہا ہے اپنی جوانیوں کو اللہ پر فدا کر دو۔ اور اخترؔ جو آپ سے خطاب کررہا ہے یہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوا تھا اور حضرت سے پہلی ہی ملاقات میں چالیس دن حضرت کے درپر رہ پڑا اور پھر سولہ سال دن رات حضرت کی خدمت کی توفیق اللہ نے عطا فرمائی، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جوانی دینے کا مزہ معلوم ہے۔ اس لیے جوانوں سے کہتا ہوں کہ جو تم کو اللہ کے نام پر جوانی فدا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے یہ بھی اللہ کے کرم سے جوانی اللہ کو دے چکا ہے۔ یہ نہ سوچنا کہ یہ بڈھا ہمیں پھنسا رہا ہے۔ یہ بڈھا جوانی اللہ کے نام پر فدا کر کے اور اس کا مزہ لوٹ کر اب بتا رہا ہے کہ جو جوان اللہ پر فدا ہوتا ہے اس کی جوانی کائنات میں بے مثل ہے کیوں کہ وہ اللہ کی بے مثل ذات پر فدا ہوا ہے اور ٹیڈیوں پر مرنے والوں کو کچھ حاصل نہیں، ان کو کفِ افسوس ہی ملتے ہوئے پایا۔اَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌکی تقریر سے حادِث کی بقاء باللہ کا منطقی اثبات اَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌعالم کی ہر چیز میں تغیر ہو رہا ہے وَکُلُّ مُتَغَیِّرٍحَادِثٌ ہر متغیر چیز حادث ہے فَالْعَالَمُ حَادِثٌ پس عالم حادث ہے۔ لہٰذا ہم بھی حادث ہیں کیوں کہ عالم کا جُز ہیں۔ جب پورا عالم حادث ہے تو ہم کس سے دل لگائیں، کس پر فدا ہوں۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب فرماتے ہیں: میں ان کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتا دے لا مجھ کو دِکھا اِن کی طرح کوئی اگر ہے حادث پر جو حادث فدا ہو گا تو میزانیہ اور مجموعہ حادث ہی ہو گا۔ لہٰذا کیوں نہ ہم اس واجب الوجود مولیٰ پر فدا ہو جائیں کہ جہاں پہنچ کر حادِث بھی باقی ہو جاتا ہے۔ پھر ہم مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ کیوں ہوں، وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ کیوں نہ ہوجائیں۔ وہ ایسے باقی ہیں کہ جو حادث ان کے پاس پہنچ گیا وہ بھی باقی ہو گیا۔ لہٰذا اپنی جوانی کو اللہ پر فدا کر کے اپنی جوانی کو باقی کر لو، اپنے مال کو اللہ پر فدا کرکے مال کو باقی کر لو۔ اپنی جان و مال، خواہشات و جوانی اللہ پر فدا کروتاکہ وَمَاعِنْدَ اللہِ بَاقٍ ہو جاؤ۔ حادث پر فدا ہو گے تو مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ