خزائن القرآن |
|
مفت میں دے رہا ہوں اور آپ کے یہ ناز و نخرے! تو حضرت نے فرمایا کہ تیرا سرمہ تو مفت کا ہے میری آنکھ مفت کی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر گناہ مفت کا ملے تو کہہ دو کہ یہ گناہ تو مفت کا ہے لیکن میرا ایمان مفت کا نہیں ہے۔آیت نمبر۶۳ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ؎ ترجمہ: اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے پاؤں اتنی زور سے نہ رکھیں جس سے زیور کی آواز نکلے اور مخفی زینت مَردوں پر ظاہر ہو۔ اس آیت سے قبل عورتوں کو مواضعِ زینت سر اور سینہ وغیرہ کو چھپانا واجب بیان فرما کر اس آیت میں حق تعالیٰ نے مزید احتیاط کا حکم ارشاد فرمایا کہ بہت سے فقہاء نے اسی سبب سے عورتوں کی آواز کو ستر میں داخل کیا ہے۔ بالخصوص جب کہ فتنہ کا اندیشہ ہو تو بالکل ممنوع ہے۔ اسی طرح خوشبو لگا کر یا مزین برقعہ پہن کر نکلنا بھی ممنوع ہے: یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا؎ اے نبی کی بیبیو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم نامحرم مرد سے بولنے میں جب کہ بہ ضرورت بولنا پڑے نزاکت مت کرو، اس سے ایسے شخص کو طبعاً خیالِ فاسد پیدا ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدۂ عفت کے موافق بات کہو یعنی صرف نسبت بلا تقویٰ ہیچ ہے (اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ) جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کہ کلام میں نرمی ہوتی ہے تم سادہ مزاجی سے اس انداز کو مت استعمال کرو۔ بلکہ ایسے موقع پر تکلف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اورر وکھا پن ہو کہ یہ طرز عفت کا محافظ ہے۔ فائدہ: ان آیات سے حسب ذیل سبق ملتا ہے: عورتوں کو بوقت شدید ضرورت اگر غیر محرم مرد سے بات کرنی ہو تو پردہ کے باوجود آواز کو بھی نرم ------------------------------