خزائن القرآن |
|
یہی وہ ربطِ خفی ہے جس کو حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا کہ اصحابِ کہف جو نہایت نادار اور غریب خاندان کے لڑکے تھے جب کافر بادشاہ کے سامنے اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںوَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ہم نے ان کے دلوں سے اپنا رابطہ قائم کرلیا، اپنے تعلق و رابطہ کا خاص فیضان ان کے قلوب پر ڈالا جس کے بعد وہ بادشاہ سے نہ ڈرے۔آیت نمبر ۵۷ وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؎ ترجمہ: اور آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھا کیجیے جو صبح وشام( یعنی علی الدوام) اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہیں۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس وقت اپنے گھروں میں سے کسی گھر میں تھے۔ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِہٖ؎ بس اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ڈھونڈنے نکلے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کو یاد کر رہے ہیں، جن کے پاس بیٹھنے کا اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو ذاکر ہوتا ہے، جو اللہ کو بہت زیادہ تڑپ اور بے چینی کے ساتھ اشکبار آنکھوں سے یاد کرتا ہے تو بسا اوقات اللہ تعالیٰ اس کے شیخ کو خود اس کے پاس بھیج دیتے ہیں، راہبروں کو اللہ رہروؤں کے پاس بھیج دیتا ہے۔اصلی مرید وہ ہے جس کی مراد اللہ ہو تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجدِ نبوی تشریف لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ تین قسم کے لوگ بیٹھے ------------------------------