خزائن القرآن |
|
فرمان کے سفیر ہیں، ان کا فرمان میرا ہی فرمان ہے، جس چیز کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلتا ہے۔محبت کی دو قسمیں معلوم ہوا کہ ہر محبت اﷲ کے یہاں مقبول نہیں۔ محبت کی دو قسمیں ہیں: ایک محبت مقبول اور ایک محبت مردود یعنی غیر مقبول جیسے عصر کی نماز کے بعد کوئی نفل پڑھے، بخاری شریف کی حدیث میں سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نفل جائز نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بھئی! ہمیں تو اللہ میاں سے محبت کرنی ہے اور وہ اخلاص کے ساتھ دروازے بند کرکے نفلیں پڑھے اور اخلاص بھی اتنا کہ اسے نہ بیوی بچے دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی مخلوق دیکھ رہی ہے، خالص اللہ کے لیے نفلیں پڑھ رہا ہے مگر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی وجہ سے نہ اس کا اخلاص قبول نہ اس کے نفل قبول لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ پاک کی محبت اتباعِ سنّت کے ذریعہ ملتی ہے۔عشقِ رسول کی بنیاد اتباعِ رسول ہے صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین میں یہی بات تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک ایک سنّت پر فدا تھے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ فرما رہے تھے، کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے، آپ نے ان کے لیے ارشاد فرمایا اِجْلِسُوْا یعنی بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے لیے محدثِ عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے اَفْضَلُ الصَّحَابَۃِ بَعْدَ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یعنی خلفائے راشدین کے بعد سب سے افضل صحابی تھے وَکَانَ یَشْبَہُ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؎ اور اپنی صورت کے اعتبار سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل مبارک سے بہت مشابہ تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسے ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد سنا تو وہیں مسجدکے دروازے پر جوتوں میں بیٹھ گئے، سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ لیا اور فرمایا: عبداللہ بن مسعود! اندر آجاؤ۔ محدثین لکھتے ہیں: ------------------------------