خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۹۸ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا؎ ترجمہ: اور جو شخص اﷲ سے ڈرے گا اﷲ تعالیٰ اس کے ہر ایک کام میں آسانی کردے گا۔ اہل اللہ تفویض و توکل و فنائیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں اور انہماک فی الدنیا نہ ہونے سے عوام ان کو کاہل سمجھتے ہیں جیسے بعض اہلِ دنیا بھی کاہل ہوتے ہیں۔ دونوں کی ظاہری صورت ایک سی معلوم ہوتی ہے لیکن اہلِ دنیا کی کاہلی اور اہلِ آخرت کی کاہلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ دنیا کی کاہلی نفس کی راحت پسندی اور آرام طلبی کے سبب ہوتی ہے اور اہلِ آخرت کی کاہلی اسبابِ دنیا میں انہماک نہ ہونے سے ہوتی ہے جس کا سبب تفویض و توکل اور اپنے ارادوں کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کر دینا ہے۔ اللہ والے دنیا کے کاموں میں تو کاہل نظر آتے ہیں مگر آخرت کے کاموں میں وہ ایسے عالی حوصلہ، مستعد اور سرگرم ہیں کہ اپنی رفتار سے چاند پر بھی سبقت لے جاتے ہیں یعنی امتثالِ اوامرِ الٰہیہ اور اجتناب عن المعاصی میں ان کی سرگرمی و جانبازی کا اہلِ دنیا تصور بھی نہیں کر سکتے۔اور چوں کہ اہلِ دنیا کو اعمالِ آخرت کی اہمیت نہیں اس لیے دنیا میں منہمک نہ دیکھ کر وہ اہل اللہ کو کاہل سمجھتے ہیں۔ اعمال کی بنیاد اور اساس دراصل یقین پر ہے۔ اہلِ دنیا چوں کہ دنیا پر یقین رکھتے ہیں اس لیے دنیا کے اعمال میں وہ سرگرم و مستعد ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص اپنی فیکٹری اور کارخانے کے لیے ساری رات جاگتا ہے، یہ مشقت اسے آسان ہے لیکن دو رکعت پڑھنا بھاری ہیں اور اہلِ آخرت کو کیوں کہ آخرت پر یقین ہے اس لیے یہ یقین ان کو سرگرمِ اعمالِ آخرت رکھتا ہے اور دنیا کے کاموں میں منہمک نہیں ہونے دیتا کیوں کہ دنیا کی حقارت و فنائیت کا یقین ان کو ہمہ وقت مستحضر رہتا ہے۔ اسی لیے اہلِ دنیا ان پر کاہلی کا الزام لگاتے ہیں لیکن موت کے وقت دونوں قسم کے اعمال کی سرگرمیوں کا انجام نظر آ جائے گا کہ کون کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے اور کون ناکامی کے گڑھے میں گر رہا ہے ؎ ------------------------------