خزائن القرآن |
|
کہ اگر دس سال پہلے کی مصیبت یاد آ جائے جیسے دس سال پہلے کسی کا انتقال ہوا اور آج اس کا خیال آ گیا اور دل میں تھوڑا سا غم آگیا تو پچھلی مصیبتوں پر بھی جو اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھے گا اس کو بھی اجر ملے گا۔اس اُمّت کی ایک امتیازی نعمت سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اُمت کو ایک ایسی چیز دی گئی جو سابقہ اُمتوں میں سے کسی اُمت کو نہیں دی گئی اور وہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت تم اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہو لہٰذا ہم سب کو اپنی قسمت پر شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے اور طفیل میں وہ نعمت دی جو پچھلی امتوں میں کسی کو بھی نہیں دی اور فرمایا کہ اگر پہلے کسی کو یہ نعمت دی جاتی تو سب سے زیادہ حق حضرت یعقوب علیہ السلام کا تھا کہ جب اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام گم ہو گئے تو اس وقت وہ کہتے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ لیکن چوں کہ یہ نعمت کسی نبی کو نہیں دی گئی اس لیے بیٹے کے گم ہونے پر آپ کو جو غم پہنچا تو آپ نے کہا: یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ ؎ ہائے یوسف افسوس! لہٰذا اس امت کو اِنَّا لِلہِ مابہ الا متیاز نعمت ہے جو سارے عالم میں ہم کو امتیازی شرف دیتی ہے، اُممِ سابقہ سے ممتاز کرتی ہے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کے کیسے کیسے کرم ہمیں عطا ہوئے۔حقیقی صبر کیا ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ صبر صرف زبان سے اِنَّا لِلہِ پڑھنے کا نام نہیں، سنّت اِستر جاع یعنی اِنَّا لِلہِ پڑھنے کی سنّت حقیقی معنوں میں اس وقت ادا ہو گی جب زبان کے ساتھ دل بھی شامل ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں، ملکیت ہیں مملوک ہیں اور مالک کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہوتا ہے لہٰذا ہمارے گھر میں مولانا مظہر سلمہ کی والدہ بھی اللہ تعالیٰ کی ملکیت تھیں۔ مالک کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو جہاں چاہے رکھے اور جب تک چاہے رکھے اور جہاں چاہے اُٹھا کر رکھ دے۔ اِنَّا لِلہِ ------------------------------