خزائن القرآن |
|
اُجالا آ گیا ہے۔ تم کالو اور ہندوستانیو! کیا جانو کہ نور کیا چیز ہے؟ بتائیے کہہ سکتا تھا کہ نہیں؟ صحابۂ کرام کا احسان ہے کہ ان کے سوال سے نورِ ہدایت کی علامات کا ہم کو علم ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: اس نور کے دل میں آنے کی تین علامات ہیں۔ دوستو! غور سے سنیے اور غور کیجیے کہ ہمارے دلوں میں ہدایت کا یہ نور کس حد تک داخل ہوا ہے؟نورِ ہدایت کی پہلی علامت پہلی علامت یہ فرمائی کہ اَلتَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِدنیا جو دھوکے کا گھر ہے اس سے وہ کنارہ کش رہتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہیں لیکن دنیا سے دل نہیں لگاتے۔ کشتی کو پانی میں چلاتے ہیں لیکن پانی کو کشتی کے اندر نہیں گھسنے دیتے۔ کشتی بغیر پانی کے چل سکتی ہے؟ پانی پر ہی چلتی ہے لیکن پانی کو اندر نہیں گھسنے دیتے۔ اگر غلطی سے پانی کچھ اندر آگیا تو کشتی والے ملازم رکھتے ہیں جو ڈبہ میں پانی بھر بھر کر کشتی کے باہر پھینک دیتے ہیں کیوں کہ اگر کشتی میں پانی بھر جائے تو کشتی بچے گی؟ تو پہلی علامت یہ ہے کہ دنیا جو دھوکے کا گھر ہے اس سے دل نہیں لگاتے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نام دھوکے کا گھر کیوں رکھا؟ جب جنازہ قبر میں اُترتا ہے تو تاجر صاحب کا کاروبار قبر میں جاتا ہے؟ ان کی مرسیڈیز اور شاندار گاڑیاں جاتی ہیں؟ ان کے سموسے اور پاپڑ جاتے ہیں؟ ان کے موبائل جن پر وہ ٹہل ٹہل کر، زاوئیے بدل بدل کر اور شان دِکھانے کے لیے عجیب عجیب منہ بنا کر بات کرتے ہیں بتاؤ وہ قبر میں ساتھ جاتے ہیں؟ اسی لیے دنیا دھوکے کا گھر ہے کہ جب جنازہ قبر میں اترتا ہے تو کوئی ساتھ نہیں دیتا، نہ کاروبار، نہ سموسہ نہ پاپڑ۔ بس جس کے دل میں ہدایت کا نور داخل ہوتا ہے اس کی پہلی علامت یہ ہے کہ دنیا جو دھوکے کا گھر ہے اس سے وہ دل نہیں لگاتا۔ جسم سے وہ دنیا میں رہتا ہے، بیوی بچوں کا بھی حق ادا کرتا ہے، کاروبار بھی کرتا ہے، کار بھی رکھتا ہے لیکن دل میں اس کے یار ہوتا ہے یعنی محبوبِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ۔ اس حقیقت کو اگر کوئی مشکل سمجھ رہا ہو تو وہ میرا ایک اردو شعر سن لے ؎ دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ با خدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جدا رہے