خزائن القرآن |
|
ترجمہ: فرشتوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم (یعنی قومِ لوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جب عذاب کے فرشتوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اے فرشتو! تم کو بڑی مہم کیا درپیش ہے؟ تو فرشتوں نے جواب دیا قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ ہم ایک مجرم قوم (یعنی قومِ لوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ہم ان پر سنگ باری کر کے ان کوتہس نہس کرنے پر متعین ہوئے ہیں جو مجرم جس پتھر سے ہلاک ہونے والا ہے اس پر اس کا نام بھی لکھا ہے۔ ان پتھروں پر خدا کی طرف سے ایک خاص مہر لگی تھی جس سے وہ دنیا کے پتھروں سے الگ پہچانے جاتے تھے۔ اور جس کنکری پر جس مجرم کا نام لکھا تھا وہ کنکری اس مجرم کا تعاقب کرتی تھی پس پہلے بستی کواُلٹ دیا گیا پھر پتھراؤ کیا گیا۔ حضرت مرشدی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ چوں کہ یہ عمل اُلٹا کرتے تھے (یعنی غیر فطری عمل) پس اسی مناسبت سے ان کی بستی اُلٹ دی گئی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے بہت سمجھایا مگر یہ ماننے کے بجائے اپنے نبی کو ایذادینے لگے، بالآخر یہچار لاکھ آدمی ایک دم ہی ہلاک کر دیے گئے۔ اس فعل کے مرتکبین کو مجرمین فرمایا گیا ہے۔ الغرض رَبّ شدید العقاب نے ان کی سخت ناشائستہ حرکت کی پاداش جو ننگِ انسانیت تھی ان پر پتھر برسائے جس سے وہ ہلاک ہو گئے اور قومِ لوط کی بستی تہہ و بالا کر دی گئی اور وَتَرْکَنَا فِیْھَا اٰیَۃًاور ہم نے اس واقعہ میں ہمیشہ کے واسطے لوگوں کے لیے ایک عبرت رہنے دی چناں چہ اس سر زمین میں دفعتاً ایک بحیرہ نمودار ہو گیا جو اسی ہولناک حادثہ کی یاد گار اور بحیرۂ لوط کے نام سے اب تک مشہور ہے، اس بحیرہ کا پانی اس قدر تلخ اور بد بودار ہے کہ کوئی ذی روح اس کو استعمال نہیں کر سکتا اور اس کے کنارے کوئی درخت نہیں اُگتا۔آیت نمبر۹۲ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ ؎ ترجمہ: تو تم اﷲ ہی کی( توحید کی) طرف دوڑو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک مفکرِ اعظم صاحب نے سوال کیا کہ اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں آپ کی نبوت کوتسلیم کر لوں، فرمایا: کہو۔ اس نے کہا کہ اگر کسی کمان سے مسلسل تیروں کی ------------------------------