خزائن القرآن |
|
اطاعت ہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے رسول ہی میں بہترین نمونہ ہے۔ اس میں ایک علمی نکتہ یہ ہے کہ آیت میں متعلقات کو مقدم کیا گیا جن کا حق تأخر کا تھا جس سے معنیٰ حصر کے پیدا ہو گئے۔ تَقْدِیْمُ مَا حَقُّہُ التَّاخِیْرُ یُفِیْدُ الْحَصْرَتو معنیٰ یہ ہوئے کہ صرف میرے رسول ہی میں اُسوۂ حسنہ موجود ہے، رسول اللہ کے علاوہ اُسوۂ حسنہ کسی اور میں ہو ہی نہیں سکتا اور چوں کہ اُسوۂ حسنہ وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں یعنی مؤمنِ کامل ہیں اور ذاکر یعنی مطیع و فرماں بردار ہیں اس لیے صوفیاء ایمان میں ترقی، اللہ اور آخرت پر یقین اور اللہ کے احکامات کی بجاآوری کے لیے ذکر اور مجاہدات کراتے ہیں تاکہ یَرْجُوا اللہَ کے مصداق ہو کر متبعِ سنّت ہوجائیں۔ سنّت پر عمل وہی کرے گا جو اللہ تعالیٰ اور یومِ قیامت سے ڈرے گا اور فرماں بردار ہو گا۔ یہ لطائفِ قرآنیہ سے ہے تفسیر نہیں ہے۔درود شریف کی اہمیت اور لفظ درود کے معانی درود شریف کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کا حکم دیا ہے: اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا؎ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) پر، اے ایمان والو! تم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)پردرود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحقِ عظمت جو تمہارے ذمہ ہے ادا ہو جائے۔) (بیان القرآن) اس آیت کی تفسیر میں حضرت حکیم الامت مجدد الملّت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا رحمت بھیجنا تو رحمت فرمانا ہے اور مراد اس سے رحمتِ مشترکہ نہیں ہے کہ جس سے اختصاصِ مقصود ثابت نہیں ہوتا بلکہ رحمتِ خاصہ ہے جو آپ کی شانِ عالی کے مناسب ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا اور اسی طرح جس رحمت کے بھیجنے کا ہم کو (مسلمانوں کو) حکم ہے اس سے مراد اس رحمتِ خاصہ کی دعا کرنا ہے او راسی کو ہمارے محاورہ میں’’درود‘‘ کہتے ہیں(انتھی کلامہٗ ) یعنی اللہ تعالیٰ کے رحمت بھیجنے سے مراد نزولِ ------------------------------