خزائن القرآن |
|
آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام وہاں پہلے ہی سے ہاتھ کھولے کھڑے تھے اور انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فوراً اپنی آغوشِ محبت میں لے لیا۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو ایسی راہوں سے پیار دیتے ہیں جو بظاہر بہت خوں ریز نظر آتی ہیں۔ اس راہ میں بعض اوقات ایسے مصائب آتے ہیں کہ دل لرز جاتا ہے کہ اس مصیبت کا کیا انجام ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کسی مصیبت کو رائیگا ںنہیں جانے دیتے بشرطیکہ ان سے رجوع رہے، مرکز نہ چھوڑے چاہے مر جائے مگر مرکز نہ چھوڑے، آخری سانس تک اللہ سے لپٹا رہے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت و وعید کو یاد کرنے والے وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ اگر کسی اللہ والے سے کبھی کوئی خطا ہو بھی جائے تو اس خطا کی تلافی وہ کیسے کرتے ہیں، پھر کیا کیفیت ہوتی ہے ان عاشقوں کی۔ گناہ کے بعد ان کی علامتِ مقبولیت کیا ہے ذَکَرُوا اللہَ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ کی یاد کے یہاں کیا معنی ہیں؟ یہاں ذکر اللہ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ کے حقوق میں کوتاہی کر کے یا بندوں کا حق مار کے ہاتھ میں تسبیح لے کر سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھنے لگتے ہیں۔ اس کی پانچ تفسیریں ہیں۔ پہلی تفسیر ہے: ذَکَرُوا اللہَ اَیْ ذَکَرُوْا عَظْمَتَہٗ وَ وَعِیْدَہٗ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرتے ہیں کہ بہت بڑے مالک اور بڑی طاقت والے مالک کو میں نے ناراض کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے، اگر خدا نے کینسر پیدا کر دیا تو کہاں جاؤں گا یا ہارٹ فیل کر دیا تو اس خبیث حالت میں موت آجائے گی۔ مگر یہ عقل بھی اُسی کو آتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہو، گدھوں کو یہ عقل نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے جب کوئی خطا ہو جاتی ہے تو ذَکَرُوْا عَظْمَتَہٗ اللہ کی عظمت کو یاد کرتے ہیں وَوَعِیْدَہٗ اور اس کی وعید اور عذاب کو یاد کرتے ہیں کہ اتنے عظیم مالک نے اگر عذاب دیا تو کہاں پناہ ملے گی۔ عَظْمَتَہٗ اور وَعِیْدَہٗ کی ایک ہی تفسیر ہے، جب عظمت ہوتی ہے تب ہی اس کی وعید بھی عظیم معلوم ہوتی ہے۔ اگر عظمت نہ ہو تو اس کی وعید سے بھی نہیں ڈرتا مثلاً ایک آدمی مر رہا ہے، چار پائی پر لیٹا ہے، ٹی بی میں مبتلا ہے، وہ اگر کسی کو دھمکاتا ہے کہ تجھے ڈنڈے ماروں گا تو دوسرا کہتا ہے کہ ابے تو کیا