خزائن القرآن |
|
سکے لیکن پھر بھی وہ ان ہی کے ساتھ لا حق کر دی جائے گی ۔ یہ اس اللہ والے کا دل خوش کرنے کے لیے ہوگا۔ حکیم الامت نے بیان القرآن میں اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں یہ تفسیر کی ہے کہ یہ ذُریت کیا ہے؟ یہ ان کی اولاد ہے۔ کون سی اولاد ؟ جو بڑی ہو چکی اور چھوٹی اولاد کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنے اللہ والے آباء سے ملا دی جائے گی وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اور ان کے عمل میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ نہیں کہ ان کا عمل تہجد و نوافل وغیرہ کاٹ کر ان سستوں اور کاہلوں کو دے دیا جائے، نہیں! کچھ کمی نہیں کی جائے گی محض ان کے اعزاز و اکرام کے لیے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لاحق کردیں گے۔ لِتَسْلِیَتِھِمْ وَ لِسُرُوْرِھِمْ تاکہ ان کو تسلی ہو اور ان کا دل خوش ہو جائے۔الحاق مع الکاملین کے متعلق ایک مسئلۂ سلوک یہاں ایک بڑی خوشی اور بشارت کی بات سناتا ہوں۔ حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر میں جو احادیث ہیں ان میں ایک حدیث میں ذریات کے بعد اولاد کو عطف کیا گیا ہے تو حضرت بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ معطوف اور معطوف علیہ میں مغایرت ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کے علاوہ بھی کوئی ذریات ہے یعنی ذریت سے مراد مطلق توابع ہیں لہٰذا اس میں ان شاء اللہ! شاگرد، مریدین اور احباب بھی شامل ہو جائیں گے۔ تلامذہ اور مریدین یہ دونوں محبت اور اطاعت کا تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کے بھی داخلہ کی گنجایش ہے۔ تو مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی، حضرت نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے کہ اس میں تلامذہ اور مریدین بھی شامل ہیں یہ بھی ذُرِّیات ہیں، روحانی اولاد ہیں۔آیت نمبر ۹۴ فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ﴿۱۰﴾ ؎ ترجمہ: تو نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں سو آپ (ان سے) انتقام لیں۔ ------------------------------