خزائن القرآن |
دہلوی نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے وقت کا امامِ بیہقی ہے، وہ اپنی تفسیر میں تصوف کو قرآن پاک سے ثابت کر رہے ہیں۔ ذکرِ اسمِ ذات ، تبتل یعنی غیر اللہ سے یکسوئی اور ذکر نفی و اثبات تصوف کے یہ تین مسئلے ثابت ہو گئے۔ آگے فرماتے ہیںفَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًاجب میں اتنا بڑا رب ہوں کہ دن پیدا کر سکتا ہوں اور رات پیدا کر سکتا ہوں تو پھر دن رات کے کاموں کے بارے میں وسوسے کیوں لاتے ہو، تم مجھ کو یعنی اللہ کو اپنا وکیل بنا لو۔ مجھ سے زیادہ کون تمہارا وکیل اور کارساز ہو سکتا ہے۔ اس آیت سے چوتھا مسئلہ تو کل کا ثابت ہوگیا جس کی صوفیاء تعلیم دیتے ہیں۔ اور اگلی آیت سے سلوک کا ایک بہت اہم مسئلہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ثابت کرتے ہیں اور وہ ہے دشمنوں کے مظالم پر صبر کرنا۔ دنیا دار صوفیوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھو تسبیح لیے مکار لوگ جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَاور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو۔ اسی طرح اللہ کے راستے میں نفس و شیطان بھی ستاتے ہیں، کبھی شیطان کہے گا کہ فلاں گناہ کر لواور کبھی نفس بھی ستائے گا اور بار بار تقاضا کرے گا کہ ارے!یہ شکل بہت حسین ہے۔ اس کو دیکھ ہی لو بعد میں توبہ کرلینا۔ نفس و شیطان کے ورغلانے کے وقت بھی یہی آیت پڑھ دو وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ دشمن جو باتیں کر رہے ہیں ان پر صبر کرو۔ باطنی دشمن یعنی نفس و شیطان جو کہیں اس پر بھی صبر کرو اور ان کے کہنے پر عمل نہ کرو۔ اسی طرح تمہارے ظاہری دشمن اور حاسدین تم پر اعتراض کریں گے کہ بڑے صوفی بن گئے، گول ٹوپی لگائے پھرتے ہیں، تسبیح لے کر مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں۔ کسی کے اعتراض کا جواب نہ دو وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ ان کی باتوں پر صبر کرو۔ اور وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جاؤ۔ الگ ہونا یہ ہے کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ ہے کہ ان کی شکایت اور انتقام کی فکر میں نہ پڑو اور یہ آخری مسئلہ ہے تصوف کا ہجرانِ جمیل جس کو تفسیر مظہری میں اس آیت سے ثابت کیا گیا ہے۔ اور ہجرانِ جمیل کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے اَلْھِجْرَانُ الْجَمِیْلُ الَّذِیْ لَا شَکْوٰی فِیْہِ وَلَا انْتِقَامَ خوبصورتی کے ساتھ الگ ہونا یہ ہے جس میں شکایت نہ ہو اور انتقام کا ارادہ بھی نہ ہو کیوں کہ جس نے اپنے دشمن سے انتقام لیا وہ مخلوق میں پھنس گیا اور جو مخلوق میں پھنس گیا ا س کو خالق کیسے ملے گا؟