خزائن القرآن |
|
اسیلیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں:اِنَّ الْوَلِیَّ لَا یَکُوْنُ مُنْتَقِمًا وَالْمُنْتَقِمَ لَا یَکُوْنُ وَلِیًّا کوئی ولی اللہ منتقم نہیں ہوتا اور کوئی منتقم ولی اللہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت یوسف علیہالسلام نے اپنے بھائیوں سے کیا فرمایا تھا؟ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ؎ تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ ارے! یہ تو شیطان نے ہمارے تمہارے درمیان فساد ڈلوا دیا تھا، تم نے کوئی گڑ بڑ تھوڑی کی تھی۔ آہ! اپنے بھائیوں کی دلجوئی بھی کر رہے ہیں تاکہ ان کو ندامت بھی نہ رہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ دین کے خدام کو یہی اخلاق رکھنے چاہئیںورنہ اگر بدلہ وانتقام کی فکر میں پڑے تو دل مخلوق میں پھنس جائے گا اور پھر دین کا کام نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان القرآن کے حاشیہ میں مسائل السلوک کے تحت یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مَنْ یَّنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَاءِ لَا یُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ جس شخص کی نظر مجارئ قضا پر ہوتی ہے، مشیتِ الٰہیہ، اللہ تعالیٰ کے فیصلو ں پر ہوتی ہے، وہ اپنی زندگی کے دنوں کو مخلوق کے جھگڑوں میں ضایع نہیں کرتا اور وہی کہتا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ تم پر کوئی الزام نہیں کیوں کہ جانتے تھے کہ بغیر مشیتِ الٰہی کے یہ بھائی مجھے کنویں میں نہیں ڈال سکتے تھے۔ دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے سب میں ہماری تربیت اور ہمارا نفع ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کے تکوینی راز ہیں۔ لہٰذا جس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ جاؤ میاں! معاف کیا، مجھے اپنے اللہ کو یاد کرنا ہے، تمہارے چکر میں کیوں رہوں اس کو معاف کیا اور دل کو اللہ کے ساتھ لگا دیا۔ اس سورتِ پاک کے شروع میں قیامِ لیل کا مسئلہ نازل فرمایا۔ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا؎ اس سے معلوم ہوا کہ رات بھر مت جاگو ورنہ صحت خراب ہوجائے گی۔ جن صوفیوں نے جوش میں رات بھر جاگنا شروع کیا کچھ دن کے بعد سب ختم اور مَنْ طَلَبَ الْکُلَّ فَاتَ الْکُلَّ کا مصداق ہو گئے۔ سب چھوڑ چھاڑ دیا حتیٰ کہ فرض بھی نہیں پڑھتے۔ اس کے بعد قرآن شریف کو ترتیل سے پڑھنے کا حکم نازل فرمایا وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا اور قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو اور ترتیل کی تعریف کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترتیل کی ------------------------------