خزائن القرآن |
|
تو بچے نے کہا یَا اُمِّیْ جَاءَ الرَّقِیْمُ وَ اَخَذَ الْمَتَاعَ وَتَبَارَکَ الْجَبَلَ۔ علامہ اصمعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک جملہ میں تین لغات حل ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ رقیم چتکبرے کتے کو کہتے ہیں اور متاع اس حقیر اور میلے کپڑے کو کہتے ہیں جس سے باورچی خانہ میں برتن صاف کیے جاتے ہیں جس کو اُردو میں صافی کہتے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ دنیا متاع، حقیر، ذلیل اور بری کب ہے؟ اِنْ اَلْھَتْکَ عَنِ الْاٰخِرَۃِ اگر آخرت سے غافل کر دے: اَلدُّنْیَا جِیْفَۃٌ وَّ طُلَّا بُھَا کِلَابٌ؎ دنیا مُردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں لیکن یہ دنیا جیفہ اور متاع یعنی حقیر و ذلیل بشرطِ شئی ہے اور بشرط شئی کیا ہے؟ اِلْھَآءعَنِ الْاٰخِرَۃِ یعنی آخرت سے غفلت اور اگر آخرت سے دنیا غافل نہ کرے تو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںاِذَادَعَتْکَ إِلٰی طَلَبِ رِضْوَانِ اللہِ تَعَالٰی وَطَلَبِ الْاٰخِرَۃِ فَنِعْمَ الْمَتَاعُ وَنِعْمَ الْوَسِیْلَۃُ؎ اگر تم دنیا کو آخرت کے لیے وسیلہ بنالو اور آخرت کا ذریعہ بنالو تو فرماتے ہیں کہ پھر دنیا ذلیل نہیں ہےوہ بہترین پونجی ہےایک شخص اپنے مال سے علماء دین کی خدمت کر رہا ہے، مسجد اور مدرسے بنا رہا ہے، دین کی کتابیں چھاپ رہا ہے، طلباء و صلحاء کو کھانا کھلا رہا ہے تو کیااس کی یہ دنیا متاعِ غرور اور ذلیل وحقیر ہے؟ یہ تو اس کی بہترین پونجی ہے جو اللہ پر فدا ہو رہی ہے۔ اس لیے حدیث میں ہے کہ لَا یَأْکُلْ طَعَامَکَ اِلَّا تَقِیٌّ؎ متقی تیرا کھانا کھائے کیوں کہ متقی کھانا کھا کر جو نیک کام کرے گا وہ کھلانے والے کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگا پس اس کی یہ دنیا ہرگز حقیر نہیں کیوں کہ آخرت کی تعمیر کا وسیلہ اور ذریعہ بن رہی ہے۔ لیکن یہ دولت ہر ایک کو نہیں ملتی۔ ہر ایک کا یہ نصیب کہاں کہ دنیا اس کو اللہ سے غافل نہ کرے۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا راز ہر سینہ کو عطا نہیں فرماتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے سرکاری کام کے لیے، اپنی ولایت و محبت و دوستی کے لیے ہزاروں میں سے کسی ایک کا ------------------------------