خزائن القرآن |
|
دارالغرور ہے تو یہ بِجَمِیْعِ اَجْزَاءِھَا وَ بِجَمِیْعِ اَشْیَاءِہَا وَ بِجَمِیْعِ اَعْضَاءِ ہَا وَ بِجَمِیْعِ نَعْمَاءِھَا سب کا سب دھوکا ہے مگر وہ چیز جو ہمیں اللہ سے جوڑ دے اور اللہ تک پہنچا دے وہ دنیا نہیں ہے۔ و ہ روٹی دنیا نہیں ہے جس کو کھا کر ہم عبادت کریں اور روٹی سے پیدا شدہ طاقت کو اللہ پر فدا کریں، وہ گھر جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے وہ دنیا نہیں ہے، وہ دولت جو اللہ پر فدا ہو مسجد کی تعمیر،اور مدرسہ کی تعمیر اور علماء کی خدمت میں صرف ہو وہ دنیا نہیں ہے۔ دنیا وہی ہے جو ہم کو اللہ سے غافل کر دے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ چیست دنیا؟ از خدا غافل بودن دنیا اللہ سے غافل ہو جانے کا نام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کو جو دارالغرور فرمایا اس کی حکمت مولانا رومی نے بیان فرمائی ہے ؎ زاں لقب شد خاک را دارالغرور کو کشد پارا سپس یوم العبور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دارالغرور کا لقب اس لیے دیا کہ جو دنیا تمہارے آگے پیچھے پھرتی ہے بیوی بچے، مال و دولت، دوست احباب، کار اور کاروبار سب تمہارے ساتھ ہوتے ہیں لیکن جب اس دنیا سے گزرنے کا وقت آتا ہے تو یہ دنیا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور لات مار کر قبر میں دھکیل دیتی ہے اور مردہ بزبانِ حال یہ شعر پڑھتا ہے ؎ دبا کے چل دیےسب قبر میں دعا نہ سلام ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو جو دوست ہر وقت وفا داری کا دم بھرتا ہو لیکن گاڑھے وقت میں ساتھ چھوڑ دے اور بے کسی اور کسمپرسی میں چھوڑ کر الگ جا کھڑا ہو وہ بے وفا اور دھوکے باز کہلاتا ہے یا نہیں؟ اسی لیے دنیا کو دارالغرور فرمایا گیا ہے۔ دنیا متاع الغرور یعنی دھوکے کی پونجی ہے اورمتاع کیا چیز ہے ؟علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجمی عالم علامہ اصمعی کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ’’متاع ‘‘اور’’رقیم‘‘ کی تحقیق کے لیے عرب کے دیہات میں گئے کیوں کہ دیہات میں اس زمانے میں ٹکسالی زبان بولی جاتی تھی،شہروں میں تو دوسری زبانوں کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ علامہ اصمعی نے دیکھا کہ ایک گاؤں میں ایک چھوٹا سا بچہ بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک چتکبرا کتا آیا اور چولہے کے پاس برتن صاف کرنے کا ایک میلا سا کپڑا تھا، کتے نے اس کو منہ میں لیا اور ایک پہاڑ پر جا کر بیٹھ گیا۔ جب ماں آئی