خزائن القرآن |
|
نہ ہونے دیں، تکلف اور اہتمام سے آواز کو ذرا سخت کریں جس میں لچک اور نزاکت کی ذرا بھی آمیزش نہ ہو۔ جب عورتوں کے لیے یہ حکم ہے تو مَردوں کو غیر محرم عورتوں سے نزاکت والی آواز سے بولنا کب جائز ہو گا۔ لہٰذا بوقتِ ضرورت غیر محرم عورتوں سے بات کرتے وقت اپنی آواز کو سخت رکھنا چاہیے۔ جس شخص کو عورتوں کی آواز کی نرمی اور نزاکت سے خیالاتِ فاسدہ پیدا ہوں یا عورتوں کی طرف میلان پیدا ہو تو قرآن نے اس طمع و کشش، میلان و رغبت کو قلب کی بیماری قرار دیا ہے۔ اس سے دورِ حاضر کے ان دوستوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو ٹیلی فون ایکسچینج پر عورتوں کو محض اس وجہ سے ملازم رکھتے ہیں کہ ان کی آواز سے کانوں کو لطف ملتا ہے اور مَردوں کی آواز سے سمع خراشی ہوتی ہے۔ تنبیہ:خوب یاد رکھنا چاہیے بالخصوص سالکینِ طریق اور عاشقینِ حق کو کہ حظِ نفس کا نقطۂ آغاز حق تعالیٰ سے بُعد و فراق کا نقطۂآغاز ہوتا ہے لہٰذا اس دشمنِ ایمان و دین یعنی نفس کوخوش کرنے سے ہوشیار رہیں۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس مرد سے (اگرچہ وہ امرد یعنی لڑکا نہ ہو) گفتگو میں اس کی آواز اور اس کے نقشہ اور چہرہ اور آنکھوں سے نفس کو لطف ملنا شروع ہو فوراً اس سے ہٹ جاوے۔ (انتھٰی کلامہ) کیوں کہ بعض حسین لڑکے داڑھی مونچھ کے کچھ کچھ نکلنے تک بھی اپنے اندر حُسن کا اثررکھتے ہیں اور عشق مجاز کے بیماروں کو بیمار کرتے ہیں۔ پس نفس کے بیمار کو حُسن رفتہ کے آثار تک دیکھنے سے احتیاط چاہیے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نفس کو جس سے بھی مزہ ملے اس سے فوراً الگ ہوجائے کیوں کہ نفس کو ذرا بھی مزہ ملنا خطرہ سے خالی نہیں۔ دشمن کو تھوڑا خوش دیکھنا بھی گوارا نہ کرنا چاہیے کیوں کہ تھوڑی خوشی سے بھی نفس کو طاقت آ جاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی معصیت میں کھینچ لے جائے گا۔ جس طرح غیر محسوس ہلکی حرارت زیادہ خطرناک ہوتی ہے کہ آدمی اس کے علاج سے غافل رہتا ہے۔ اسی طرح جس شخص کی طرف نفس کا ہلکا سا میلان ہو اس کی صحبت بھی نہایت خطرناک ہوتی ہے کیوں کہ شدید میلان اور شدید رغبت والی صورتوں سے تو سالک بھاگتا ہے مگر یہاں ہلکے میلان کے سبب اسے احتیاط کی توفیق نہیں ہوتی اس طرح ہلکے ہلکے زہر کو شیطان اس کی روح میں اُتا رتا رہتا ہے یہاں تک کہ نفس قوی ہو کر سالک کو بڑے بڑے گناہوں کی طرف نہایت آسانی سے کھینچ لے جاتا ہے ؏ گوشۂ چشم سے بھی اُن کو نہ دیکھا کرنا اور ؎