خزائن القرآن |
|
کی بدبو دور کرنا ضروری ہے ورنہ عود کی خوشبو محسوس نہ ہوگی، اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی لذّتِ قرب کے لیے غیر اﷲ سے طہارت اور پاکی ضروری ہے اسی لیے کلمہ میں لَا اِلٰہَ کو مقدم فرمایا کہ پہلے غیر اﷲ کو دل سے نکالو، پھر اِلَّا اللہْ کی خوشبو ملے گی۔ قرآن پاک میں ہے: حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ؎ اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ نے رَءُوْفٌ کو مقدم فرمایا رَحِیْمٌ پر۔ اور حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ کے کیا معنیٰ ہیں کہ میرا نبی تم پر حریص ہے، سوال یہ ہے کہ کس چیز پر حریص ہے؟ تمہارے مال پر یا تمہاری جیب پر؟ نہیں۔ ان چیزوں سے نبی کا کیا تعلق! علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا عمدہ تفسیر کی ہے: حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ اَیْ عَلٰی اِیْمَانِکُمْ وَصَلَاحِ شَانِکُمْ؎ میرا نبی تمہارے مال کا نہیں بلکہ تمہارے ایمان کا اور تمہاری اصلاحِ حال کا حریص ہے ۔ آپ کی یہ شانِ کرم تو سب کے ساتھ ہے، خواہ مؤمن ہو یا کافر لیکن بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ایمان داروں کے ساتھ تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ بِالْمُؤْمِنِیْنَ کی تقدیم بتاتی ہے کہ رافت اور رحمت صرف مؤمنین کے لیے خاص ہے کافروں کے لیے نہیں، رافت کے معنیٰ دفعِ ضرر کے ہیں اور رحمت کے معنیٰ جلبِ منفعت کے ہیں اور دفعِ مضرت چوں کہ مقدم ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے رَءُ وْفٌ کو رَحِیْمٌ سے پہلے نازل فرمایا۔ اسی قاعدۂ کلیہ سے اﷲ تعالیٰ نے تلاوت سے پہلے اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنے کا حکم دے کر دفعِ مضرت کو مقدم فرمایا کہ شیطان میرا دشمن ہے جو تمہارابھی دشمن ہے اَعُوْذُ بِاللہِ پڑھ کر اسے بھگا دو تاکہ وہ تمہارے دل میں وساوس نہ ڈال سکے۔ محدثِ عظیم ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: اَلشَّیْطَانُ مُشَبَّہٌ بِالْکَلْبِ الْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ؎ شیطان کی مثال اس کُتّے کی سی ہے جو دروازہ پر کھڑا رہتا ہے ،جیسے دنیا کے بڑے لوگ فارنر کا بڑا کُتّا بھیڑیا نسل کا رکھتے ہیں۔ پس اﷲ تعالیٰ تو سب سے بڑے ہیں لہٰذا ان کا کتا بھی تمام کتوں سے بڑاکتا ہے، اکبر الکلاب ہے۔ ------------------------------