خزائن القرآن |
|
کہ جن کے اسلام لانے سے، کلمہ پڑھنے سے آسمانوں پر فرشتوں نے خوشیاں منائیں اور یہ خبر دینے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام اس وقت ایک آیت لے کر نازل ہوئے اور آیت کیا تھی؟ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اے نبی ا !آپ کےلیے اللہ کافی ہے اور آپ کے تابعدار اور غلام یہ مؤمنین بھی آپ کے لیے کافی ہیں۔ اس سے پہلے یہ آیت نازل نہیں ہوئی حالاں کہ چالیس آدمی ایمان لاچکے تھے۔ ان کے ایمان لانے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی اس کی شانِ نزول حضرت عمر ہیں یعنی ان کا اسلام لانا اس آیت کے نزول کا سبب ہوا کہ اے نبی ا!اللہ آپ کے لیے کافی ہے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا بہادر اور طاقت ور صحابی آپ کو دیا جا رہا ہے ایسے تابعدار مؤمنین بھی آپ کے لیے کافی ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یٰۤاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ پر وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ کو کیوں عطف کیا گیا یعنی اللہ تعالیٰ کی کفایت کے باوجود ایمان والوں کی کفایت یعنی کافی ہونے کا تذکرہ کیوں کیا گیا۔ جس کے لیے اللہ کافی ہو جائے تو اللہ کے کافی ہوتے ہوئے پھر مؤمنین کی کفایت کی کیا ضرورت تھی؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان دکھانی تھی کہ ان کے آتے ہی کعبہ میں اذان ہوئی اور جماعت سے نماز ادا کی گئی۔ ان کے ایمان لاتے ہی صحابہ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا یہاں تک کہ کعبہ تک تکبیر کی آواز پہنچ گئی اور حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو ہم خفیہ نماز کیوں ادا کریں لہٰذا دو صفیں بنائیں۔ ایک صف میں سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رکھا ، ایک صف میں خود ہوئے اور بیچ میں شمعِ نبوت کو رکھا اور یہ دوصفوں کے ساتھ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر کعبۃ اللہ میں آئے اور نماز ادا کی اور اسلام کو سر بلند کر دیا۔ کَانَ الْاِسْلَا مُ قَبْلَ اِسْلَامِ عُمَرَ فِیْ غَایَۃِ الْخِفَاءِ وَ بَعْدَہٗ عَلٰی غَایَۃِ الْجَلَاءِ اسلام پہلے جتنا پوشیدہ تھا ان کے ایمان لانے کے بعد اتنا ہی واضح ہو گیا۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کفایت کے ساتھ مؤمنین کی کفایت کو اس لیے فرمایا کہ کفایت کی دو قسمیں ہیں: ایک حقیقی کفایت ہے کہ اصل میں تو اللہ ہی بندہ کے لیے کافی ہے لیکن ایک کفایتِ ظاہری بھی ہوتی ہے، فوج و لشکر کی طاقت بھی ہوتی ہے تاکہ ظاہری طور پر بھی دشمنوں پر رعب جم جائے۔ طواف کے دوران رمل کیوں ہے کہ دوڑ کر چلو؟ کافروں پر رعب جمانے کے لیے ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اے نبی! اصل کافی تو آپ کے لیے اللہ ہی ہے، لیکن حضرت عمر جیسا بہادر صحابی اوردوسرے جاں نثار صحابہ آپ کو دے رہا ہوں تاکہ ظاہری طور پر بھی دشمنوں پر رعب جم