خزائن القرآن |
|
ساتھ بندہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں منا جات وگریہ و زاری کرتا ہے یہ اضطرار راحت و عیش کی حالت میں کیسے پیدا ہو سکتا تھا۔ یہی مصیبت اس کو اللہ تک پہنچا دیتی ہے اور قلب میں حق تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ؎ بڑھ گیا ان سے تعلق اور بھی دشمنیٔ خلق رحمت ہوگئی مجذوبؔ ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں کہ حالتِ حزن میں حق تعالیٰ کا راستہ بہت جلد اور تیزی سے طے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پریشانی اور غم سے قلب میں ایک شکستگی اور عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ اس حالت میں حق تعالیٰ کی خصوصی معیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَاللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے ایّام خواہ عیش کے ہوں یا تکلیف کے سب کو فنا ہے بس نہ تو عیش سے اِترانے لگے نہ تکلیف سے شکایت و اعتراض کرنے لگے۔ راحت پر شکر اور تکلیف پر صبر و رضا و تسلیم سے کام لینا چاہے ،مقصدِ حیات کو اگر پیشِ نظر رکھا جائے تو سب مشکلوں کا حل نکل آئے اور مقصدِ حیات صرف رضائے حق کا حصول ہے اور حق تعالیٰ کے راضی کرنے کا طریقہ ان کے بتلائے ہوئے قانون پر اہتمام سے عمل کرنا اور کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کرتے رہنا ہے، اگر اتباعِ سنّت نصیب ہے تو عیش ہو یا تکلیف دونوں حال اس بندے کے لیے مبارک و مفید اور ذریعۂ قرب و رضا ہیں۔ اگر اتباعِ سنّت حاصل نہیں تو عیش کس کام کا! حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ العزیز کا ارشاد ہے کہ گناہ گار اور نا فرمان پر بھی تکالیف اور بلائیں آتی ہیں اور نیکوں پر بھی آتی ہیں۔ پھر دونوں میں فرق کیسے ہو کہ یہ بلا و تکلیف شامتِ اعمال ہے یا ذریعۂ قُربِ الٰہی ہے؟ تو اس کی پہچان یہ ہے کہ جس مصیبت و کلفت میں اتباعِ سنّت نصیب رہے اور قلب میں حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ محبت و انس ورضا کا تعلق و رابطہ محسوس ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یہ تکلیف ذریعۂ قُربِ الٰہی ہے اور جس تکلیف سے دل میں ظلمت، وحشت اور حق تعالیٰ سے دوری محسوس ہو اور توفیقِ انابت و گریہ وزاری نہ عطا ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یہ شامت اعمالِ بد کے سبب ہے۔ اس وقت استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔ سورۂ نوح میں استغفار کی برکت مذکور ہے کہ استغفار سے حق تعالیٰ بارش عطا فرماتے ہیں، باغات عطا فرماتے ہیں اور مال و اولاد میں برکت ہوتی ہے۔