خزائن القرآن |
|
دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے جب پُروا ہوا چلتی ہے تو پرانی چوٹ درد کرنے لگتی ہے۔ اللہ کی محبت کی یہ پُروا ہوائیں اللہ والوں کی مجالس میں ملتی ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جامع صغیر کی روایت ہے کہ اِنَّ لِرَبِّکُمْ فِیْۤ اَیَّامِ دَھْرِکُمْ نَفَحَاتٍ فَتَعَرَّضُوْا لَہَا لَعَلَّہٗۤ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْہَا فَلَا تَشْقَوْنَ بَعْدَھَاۤ اَبَدًا؎ اے میری امّت کے لوگو! تمہارے زمانہ کے شب و روز میں اللہ تعالیٰ کے قرب کی ہوائیں آتی رہتی ہیں، تجلیاتِ جذب نازل ہوتی رہتی ہیں، تم ان کو تلاش کرو شاید کہ تم ان میں سے کوئی تجلی، نسیمِ کرم کا کوئی جھونکا پاجاؤ،جس کا یہ اثر ہے کہ پھر تم کبھی بد بخت و بد نصیب نہیں ہو سکتے۔ اس حدیث میں اللہ کے قرب کی ہواؤں کا، تجلیاتِ قرب کے نزول کا زمانہ بتایا گیا۔ لیکن بخاری شریف کی حدیث میں ان کا مکان بھی بتا دیا گیا کہ یہ کہاں نازل ہوتی ہیں: ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ؎ یہ اللہ والے ایسے ہم نشین ہیں کہ جن کے پاس بیٹھنے والا کبھی بدبخت و بد نصیب نہیں رہ سکتا۔ دونوں حدیثوں کو ملانے سے ایک علمِ عظیم عطا ہوا۔ زمانہ کے شب و روز میں جو تجلیاتِ جذب نازل ہوتی ہیں جو شقاوت کو سعادت سے بدل دیتی ہیں ان کی منزل اور محل اور ان کا مکان اہل اللہ کی مجالس ہیں کیوں کہ ان کا جلیس و ہم نشین بد بخت نہیں رہ سکتا۔ معلوم ہوا کہ ان تجلیاتِ مقر بات کی جائے نزول مجالسِ اہل اللہ ہیں لہٰذا جو اللہ والوں کے پاس بیٹھتا ہے تو جذب کی کوئی تجلی اس پر بھی پڑ جاتی ہے اور ہمیشہ کے لیے سعید ہو جاتا ہے اور محبت کی پرانی چوٹ جو اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡفرما کر اللہ تعالیٰ نے لگائی تھی پھر اُبھر آتی ہے اور یہ اللہ کی محبت کا دردِ مستقل پا جاتا ہے۔ دونوں حدیثوں کے ارتباط سے جو علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اس کی حلاوت سے دل مست ہو رہا ------------------------------