خزائن القرآن |
|
اے اللہ! میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں آپ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔ اہلِ دنیا اللہ کے نام کی لذّت کو اور ان کی محبت کے مزہ کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے دیوانے جو بظاہر مفلس و قلاش نظر آتے ہیں اپنے سینوں میں ایسی دولت لیے ہوئے ہیں کہ ان کی لذّتِ قرب اہلِ ظاہر کی عقل نارساو فہم و ادراک سے بالاتر ہے بلکہ ہر عاشق کی نسبت مع اللہ کا رنگ الگ ہے، ہر عاشق کی آہ الگ ہے، ہر ولی کو ایک شانِ تفرد حاصل ہے لہٰذا ایک ولی بھی دوسرے ولی کی باطنی لذّت اور اس کے قرب کی تفصیلاتِ کیف سے بے خبر ہوتا ہے۔ اجمالاً ایک دوسرے کے صاحبِ نسبت ہونے کا تو علم ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کو کیا لذّتِ قرب حاصل ہے وہ ایک دوسرے پر مخفی ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی محبت کی لذّت ہر ایک کو الگ الگ دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے چھپا کر دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ؎ نکرہ تحت النفی ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی کوئی نہیں جانتا جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہم مخفی طور پر اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی کہ جس طرح ماں اپنے بچہ کو دودھ دیتی ہے تو دودھ کی شیشی پر کپڑا لپیٹ دیتی ہے تاکہ اس کے پیارے بچوں کی نظر اس کے پیارے بچے کو نہ لگ جائے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیاروں کو اپنے قرب کی لذّت چھپا کر دیتے ہیں تاکہ ان کے پیاروں کی نظر ان کے پیاروں کو نہ لگ جائے، ایک ولی کی نظر دوسرے ولی کو نہ لگ جائے۔ اس لیے ایک ولی کی باطنی کیفیات کی تفصیلات کا علم دوسرے ولی کو بھی نہیں ہوتا۔ عبد و معبود کے درمیان یہ اتصال و ربطِ خفی ایک سر بستہ راز ہوتا ہے جو دوسرے بندہ پر پوشیدہ ہوتا ہے جس کو خواجہ صاحب نے یوں تعبیر فرمایا ہے ؎ ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے لیکن اہلِ دنیا کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔ وہ تو ہمیں دیوانہ ہی کہیں گے کہ دیکھو ان مولویوں کو اور داڑھی والوں کو کہ اللہ کو دیکھا نہیں اور اللہ پر فدا ہو رہے ہیں۔ ------------------------------