خزائن القرآن |
|
فرمائیں گے تو لام تاکید بانون ثقیلہ سے کہو لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ہم بہت زبردست خسارے میں پڑجائیں گے، اتنا بڑا خسارہ کہ جس کی کوئی انتہا نہیں لہٰذا ہمیں خسارےوالوں میں نہ کیجیے۔ معلوم ہوا کہ ایک قوم ایسی ہے جو خسارےمیں ہے اور اس کی دلیل ہے: وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ ؎ ترجمہ: قسم ہے زما نہ کی ( جس میں نفع ونقصان واقع ہوتا ہے) کہ انسان(بوجہ تضییعِ عمر کے) بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے(کہ یہ کمال ہے) اورایک دوسرے کو (اعتقادِ) حق (پر قائم رہنے) کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو (اعمال کی) پابندی کی فہمائش کرتے رہے۔ سارے انسان خسارہ میں ہیں اور اس خسارے سے مستثنیٰ کون ہیں اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیا او ر گناہ عملِ صالح کے خلاف ہے اور خسارے والوں سے استثناء ان ہی لوگوں کا ہے جو مؤمن بھی ہوں اور عملِ صالح بھی کرتے ہوں اور دعوۃ الی اللہ بھی دیتے ہوں، وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ امر بالمعروف اور وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ نہی عن المنکر ہے لہٰذا اے اللہ! اگر آپ کی صفتِ مغفرت ورحمت ہم پر مبذول نہ ہوگی یعنی اگر آپ ہمیں معاف نہیں کریں گے اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہم انہیں خسارے والوں میں من تبعیضیہ بن کر داخل ہو جائیں گے یعنی ان خسارہ والوں کا جز بن جائیں گے اور یقیناً بڑے خسارے میں پڑجائیں گے کہ کوئی ہمارا ٹھکانہ نہ ہو گا ؎ اُٹھا کر سر تمہارے آستاں سے زمیں پر گر پڑا میں آسماں سے اور یہ کلام اللہ کی بلاغت ہے کہ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ فرمایا۔ اگر صرف خٰسِرِیْنَ نازل ہوتا تو یہ بلاغت پیدا نہ ہوتی، من تبعیضیہ ہے اور الف لام استغراق کا ہے جس سے وہ تمام اقوامِ خاسرین اس میں شامل ہو گئیں جن پر ان کے ظلم کے سبب عذاب نازل ہوا۔ اس میں قومِ لوط اور قومِ عاد و ثمود اور جملہ اقوامِ خاسرین آگئیں جس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اے رب! اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ان خائب و خاسر ------------------------------