خزائن القرآن |
کو اور زیادہ کر دیا کہ تم اپنے پالنے والے کی نا فرمانی کرتے ہو، جس کی روٹی کھاتے ہو اسی کو ناراض کرتے ہو۔ جس کی روٹی سے تمہارے جسم میں خون بنتا ہے، خون تو لال تھا لیکن وہی خون تمہاری آنکھوں میں نور سے تبدیل ہوگیا، کانوں میں وہی خون قوتِ سامعہ سے تبدیل ہو گیا، ناک میں وہی خون قوتِ شامّہ بن گیا، زبان میں وہی خون قوتِ ذائقہ بن گیا، سفید بالوں کو وہی خون سفیدی دیتا ہے اور کالے بالوں کو سیاہی دیتا ہے اور تمام اعضاء میں جا کر ان اعضاء کی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ میری روٹیوں سے تمہارے جسم کے کارخانہ میں قوتوں کا خزانہ پیدا ہو رہا ہے اور میری روٹیاں کھا کر تم میری ہی نا فرمانی کرتے ہو لہٰذا کہو رَبَّنَا ظَلَمْنَااے ہمارے پالنے والے! آپ ہی کی ربوبیت سے ہم جیتے ہیں اور آپ ہی کی ربوبیت سے ہم جینے کی طاقت پاتے ہیں۔ پس ہم ظالم ہیں، کتنے سخت ظالم ہیں کہ اپنے پالنے والے کی روٹیاں کھا کر اسی کی مرضی کے خلاف کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اپنے پالنے والے سے اپنے ظلم کا اعتراف کرو۔ اس استغفار میں بھی ڈانٹ نہیں ہے، مزہ ہی مزہ ہے کہ پہلےرَبَّنَا کہنے کا مزہ لوٹو کہ ہم تمہارے کیا لگتے ہیں اور تم نے کس کی نافرمانی کی ہے پھر ظَلَمْنَا کا مزہ لوٹو کہ اس اعترافِ ظلم میں بھی مزہ ہے۔ کیا کہوں اہلِ عشق سے پوچھو کہ عاشقوں کو اپنی خطاؤں کے اعتراف میں اور محبوب سے معافی مانگنے میں کیا مزہ آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کو یہی مزہ عطا فرما رہے ہیں کہ کہو ہم بڑے ظالم اور نا لائق ہیں کہ آپ جیسے پالنے والے مالک کو ناراض کر رہے ہیں۔ ظَلَمْنَاسے پہلے اپنی صفتِ ربوبیت بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمارے گناہوں کی ندامت کو اور زیادہ قوی کر دیا کہ اپنے پالنے والے کی نافرمانی کرنا نہایت غیر شریفانہ حرکت ہے۔رَبَّنَا کی وجہ سے ہمارا ظَلَمْنَا بھی قوی ہو گیا، ہماری ندامت کو بڑھا کر قربِ ندامت کو بھی بڑھا دیا کیوں کہ قربِ ندامت بقدرِ ندامت اور نزولِ رحمت بقدرِ ندامت ہوتا ہے جتنی زیادہ ندامت ہوگی اتنا ہی زیادہ تجلیاتِ مغفرت اور تجلیاتِ رحمت کا نزول ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ ظَلَمْتُ کیوں نہیں سکھایا ظَلَمْنَاکیوں سکھایا۔ تو جواب یہ ہے کہ کبھی نگاہ نامحرموں کو دیکھ کر گناہ کرتی ہے، کبھی زبان ان سے باتیں کر کے یا حرام غذا چکھ کر گناہ گار ہوتی ہے، کبھی کان نامحرموں کی آواز سن کر یا گانے سن کر مزہ لیتے ہیں، کبھی ہاتھ حسینوں کو چھو کر مجرم ہوتے ہیں، کبھی پاؤں ان کی گلی میں جا کر حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہیں غرض بِجَمِیْعِ اَعْضَاءِنَا ہم ظلم کرتے ہیں تو ظَلَمْنَا کا حکم اس لیے دیا کہ گویا ہمارے جمیع اعضاء مل کر معافی مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے! ہمیں معاف کردیجیے۔ اور اَنْفُسَنَا میں ایک معرفت عطافرمائی کہ گناہ کر کے تم نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا۔ تمہارے ظلم اور تمہارے گناہ کا نقصان تمہیں کو پہنچا۔ اگر ساری دنیا کافر، سرکش اور نا فرمان ہو جائے تو اللہ کی عظمت میں ایک