خزائن القرآن |
|
اوررَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا۔الخ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے لیے نازل فرمایاہے۔ یہ ملائکہ کے لیے نہیں ہے کیوں کہ ان سے خطا نہیں ہوتی، وہ معصوم الفطرت ہیں لہٰذا یہ ہمارے لیے بذریعۂ باباا ٓدم علیہ السلام عطا فرمایا۔ گناہ گاروں کے لیے معافی کا یہ سرکاری مضمون ہے جس کے ایک ایک لفظ میں پیار ہے ورنہ مجرم کو سخت الفاظ میں ڈانٹتے ہیں کہ معافی مانگ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیار سے سمجھایا ہے کہ تم سے خطا ہو جائے تو کہو رَبَّنَااے ہمارے پالنے والے! ان کلماتِ استغفار میں ہی تمہیں ہمارا پیار مل جائے گا۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا پیار نہیں ہے کہ رَبَّنَا سکھا کر اپنا رشتہ بتا دیا کہ ہم تمہارے کیا لگتے ہیں ورنہ خالی اَللّٰھُمَّبھی سکھا سکتے تھے لیکن یہاں رَبَّنَاسکھایا تاکہ میرے بندوں کو معافی کی امید ہو جائے کیوں کہ پالنے والا جلد معاف کر دیتا ہے جیسے ماں باپ بچوں کو جلد معاف کر دیتے ہیں۔ رَبَّنَا سکھا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں امید دلا دی کہ گھبراؤ مت ، ہم تمہارے پالنے والے ہیں، تمہاری جلد معافی ہو جائے گی۔ اگر ہمیں تم کو معاف کرنا نہ ہوتا تو ہم تم سے رَبَّنَانہ کہلواتے۔ جب باپ اپنے بچے کو سکھائے کہ یوں کہو کہ اے میرے ابو! مجھے معاف کر دیجیے تو معلوم ہوا کہ باپ کاارادہ معافی ہی دینے کا ہے ورنہ سزا کا یہ عنوان نہیں ہوتا۔ اگر باپ بیٹے کو ڈنڈے لگانا چاہتا ہے تو یہ نہیں سکھائے گا کہ کہو یَااَبَوَیَّ بلکہ دوڑا لے گا کہ ٹھہر نا لائق! ابھی تیری پٹائی لگاتا ہوں۔ یَااَبَوَیَّ سکھانا دلیل ہے باپ کی شفقت کی اور رَبَّنَا سکھانا دلیل ہے حق تعالیٰ کی شفقت اور رحمت کے نزول کی۔ لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کا یہ سکھانا کہ مجھے صرف اللہ نہ کہو، خالی رب بھی نہ کہو بلکہ کہو رَبَّنَااے ہمارے پالنے والے، یہ پیار کا جملہ دلیل ہے کہ باوجود تمہاری خطاؤں کے اب ہم تمہیں پیار کرنے والے ہیں، تمہارے گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں، اب تمہیں اپنا پیارا بنانے والے ہیں۔رَبَّنَاسکھا کر گناہوں سے معافی بھی دے دی اور رَبَّنَا کا مزہ اور نشہ بھی دے دیا۔ گناہ گاروںکو مزہ دے دے کر معافی دے رہے ہیں ورنہ مزہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ واجب نہیں، فضلاً و احساناً گناہ گاروں کو معافی کا سرکاری مضمون ایسا دیا کہ میرے بندوں کو رَبَّنَاکہنے کا مزہ بھی آ جائے۔ جب کوئی بچہ کہتا ہے کہ میرے ابو! تو کیا اس بچّے کو مزہ نہیں آتا؟ تو میرے رباکہنے میں کیا بندے کو مزہ نہیں آئے گا؟ رَبَّنَاکہنے کا مزہ الگ ہے ظَلَمْنَا کہنے کا مزہ الگ ہے، اَنْفُسَنَا کہنے کا مزہ الگ ہے، جو ابھی بیان کروں گا جو میرا مالک میرے دل کو عطا فرما رہا ہے۔ ہر ہر لفظ میں مزہ ہی مزہ ہے، مزے کا سمندر بھرا ہوا ہے، محبت کا رس بھرا ہوا ہے۔ کیا کہوں کیسا کریم مالک ہے کہ اپنے گناہ گار بندوں کو معافی کا سخت مضمون نازل نہیں فرمایا بلکہ استغفار کے کلمات میں بھی لطف اور مہربانی اور کرم اور پیار اس ارحم الراحمین نے رکھ دیا۔ پہلے رَبَّنَاسے اور اس کے بعد ظَلَمْنَا سے ہمارے اعترافِ ظلم کو اور سنگین کر دیا، ہماری ندامت