خزائن القرآن |
|
محیط ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو صحابہ کے کمالِ ایمان و یقین و عشق و محبت کا تو علم تھا ہی لیکن اپنے علمِ مخفی کو مخلوق پر ظاہر کرنا تھا اور اپنے عاشقوں کا ساری کائنات میںڈنکا پٹوانا تھا کہ میرے عاشق ایسے ہوتے ہیں جو مجھ پر اپنی جانوں کو فدا کر دیتے ہیں ؎ جان دے دی میں نے ان کے نام پر عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر اور صحابہ کے خونِ شہادت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کی تاریخ لکھو ادی جس عظمت کو لکھنے سے سات سمندر اور اس سمندروں کے مثل اور ساری دنیا کے درختوں کے قلم قاصر تھے اور اُحد کے دامن میں ستر شہیدوں کے جسم مبارک سے بزبانِ حال یہ اشعار نشر ہو رہے تھے ؎ ان کے کوچے سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے ستّر شہیدوں کے جنازوں کی نماز سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ادا فرمائی جن کا جنازہ سید الانبیاء صلی اﷲ علیہوسلم پڑھائیں اس سے بڑی اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔ آگے حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ جنگِ اُحد میں یہ جو شہادت ہوئی ہے یہ میرا انتظام تھا کہ تم میں سے بعضوں کو شہید بنانا تھا ؎ حسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے یہ میرا انتظام تھا کہ منعم علیہم کے ایک طبقہ کو وجود بخشنا تھا کیوں کہ بغیر منعم علیہم کے انسان صراطِ مستقیم نہیں پاسکتا تھا لہٰذا منعم علیہم کے چار طبقے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے: مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ؎ نبیّین، صدیقین اور صالحین کو تو اُمت نے دیکھ لیا تھا لیکن اگر شہید نہ ہوتے تو منعم علیہم کا ایک اہم طبقہ وجود میں نہ آتا اور کفار قرآنِ پاک کی صداقت پر اعتراض کرتے کہ شہداء کا وہ طبقہ منعم علیہم کہاں ہے جس کا قرآنِ پاک میں اعلان کیا گیا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے شہادت دے کر اس طبقہ کا وعدہ پورا کردیا۔ علامہ آلوسی ------------------------------