خزائن القرآن |
|
اَلْمُرَادُ بِالرَّحْمَۃِ الْاِنْعَامُ الْخَاصُّ وَ ھُوَ التَّوْفِیْقُ لِلثُّبَاتِ عَلَی الْحَقِّ، وَ فِیْ سُؤَالِ ذٰ لِکَ بِلَفْظِ الْھِبَۃِ اِشَارَۃٌ اِلٰی اَنَّ ذٰ لِکَ مِنْہُ تَعَالٰی تَفَضُّلٌ مَّحْضٌ مِّنْ غَیْرِ شَائِبَۃِ وُجُوْبٍ عَلَیْہِ عَزَّ شَاْنُہٗ؎ ترجمہ: اس رحمت سے مراد رحمتِ خاصہ ہے اور وہ حق پر رہنے کی توفیق ہے، لفظ ہبہ سے سوال سکھانے میں تعلیم ہے کہ جس طرح ہبہ بدونِ معاوضہ ہوتا ہے اور صرف عنایاتِ واہب سے ہوتا ہے اسی طرح استقامت کی نعمت محض عطائے حق ہے، فضلِ محض ہے۔ ضابطہ سے نہیں ملے گا۔ صرف زاری اور الحاح سے دعا کرنے سے ملے گا۔ کما قال العارف الرومی ؎ زور را بگذار و زاری را بگیر رحم سوئے زاری آید اے فقیر طاقت سے یہ دولت نہیں ملتی، رونے سے کام بنتا ہے۔ اے فقیر! رحمتِ حق سوئے گر یہ و زاری متوجہ ہوتی ہے۔ اور اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ سوال کی تعلیل ہے۔ یعنیلِاَ نَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ہم آپ سے اس رحمتِ خاصّہ کو بطور ہبہ اس لیے مانگتے ہیں کہ آپ بہت بخشش کرنے والے اور بہت عطا کرنے والے ہیں۔ واہ رے میرے کریم مالک !مانگنے والوں کے لیے اپنی کیسی صفت بیان فرما دی کہ ہر گناہ گاریہ دولت مانگ لے۔ یہ نعمتِ ہدایت اور توفیق حق تعالیٰ کی ولایت کی تفسیر ہے۔ اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ؎ حضرت آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ظلمات سے اخراج بذریعۂ ہدایت و توفیق یہ ولایت کی تفسیر ہے: یُخْرِجُھُمْ بِھِدَایَتِہٖ وَ تَوْفِیْقِہٖ وَھُوَ تَفْسِیْرُ الْوِلَا یَۃِ اورولی کی تفسیر میں فرمایا: اَیْ مُعِیْنُھُمْ وَمُحِبُّھُمْ وَمُتَوَلِّیْ اُمُوْرِھِمْ، وَ اَفْرَدَ النُّوْرَ لِوَحْدَۃِ الْحَقِّ وَجَمَعَ الظُّلُمٰتِ لِتَعَدُّدِ فُنُوْنِ الضَّلَا لِ؎ ------------------------------